اٹوٹ تثلیث

اللہ  تبارک و تعالیٰ نے آدمی کو بے حد و حساب نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے لیکن دو چیزیں ایسی ہیںجو سماج میں اولاد آدم کی شناخت اور تشخص ،اہمیت اور معنویت کا وسیلہ ہیں۔اول ’زبان‘ اور دوئم’’علم الاسماء ‘‘۔ اسی لئے آدمی ’’حیوان ناطق‘‘ بھی کہلاتاہے اور’’ حیوان عاقل‘‘ بھی۔ زبان کے ذریعے آدمی،سماج میں ربط و ضبط پیدا کرتا ہے اور علم الاسما آدمی کو مشاہدہ،مطالعہ اورتجربہ میں آنے والے سماجی حقائق اورمسائل ،حالات اور کیفیات کے تجزیہ و تحلیل اور اظہار و بیان کی قوت بخشتا ہے۔زبانیں  فطر ی اور نا محسوس طور پر سماجی زندگی کی ضرورتوں کے تحت وجود میں آتی ہیں۔زبان کوئی ایک شخص نہیں بناتا اور نہ زبان کے بننے کا کوئی خاص وقت اور مقام متعین ہوتا ہے بلکہ ہر سماج اپنے ماحول اور ضروریات کے مطابق ا یک زبان پیدا کر لیتا ہے۔پھر یہ زبان اپنے طور پر پھلتی پھولتی اور ترقی کرتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس زبان کو علم وادب کے اظہار اور ترسیل کا وسیلہ بنا لیا جاتا ہے ۔زبان اور ادب کی داخلی اور خارجی ساخت میں زات،زندگی اور زمانہ کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔نا محسوس طور پر زبان میں نئے الفاظ شامل اور بعض پرانے الفا ظ متروک بھی ہوتے جاتے ہیں۔ادب کے لب و لہجے اوراسلوب میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔اس اعتبار سے کسی بھی سماج  کی ز بان اور اس کے ادب  میں ڈھیر ساری طلسماتی گُتھیاں ہوتی ہیں جنھیں کھولنے کا فریضہ ماہرین لسانیات انجام دیتے ہیں ۔     زبان سے متعلق سوسئیر F.D.Saussureنے اپنی کتاب A General Course in Linguisticمیںزبان کو Nomenclature یعنی چیزوں کو نام دینے والے نظام کے بجائے زبان کو ’’افتراقات کا نظام (s  Systemof Differenceقرار دیتے ہوئے کہا ہے ،
{Language Signifies Reality By BestowingA Particular Linguistially Structured Form Of Conceptual Organisation Upon It.   یعنی  زبان  ایک تصوراتی نظام کے ذریعے حقائق کی ترجمانی کرتی ہے ۔زبان چیزوں کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ چیزوں کا تصور قائم کرتی ہے ۔سوسئیر زبان سے متعلق اپنے نظرئے کی وضاحت ،Langue,Parole,Signifier &Signified  جیسی اصطلاحات کے ذریعے کرتا ہے ۔ سوسئیر زبان کے ایک سماجی حقیقت ہونے پر اصرار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ’’ صرف اور صرف ایک سماجی گروہ ہی الفاظ کی تخلیق کر سکتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں کوئی خاس طبقہ ہی سماج میں نئے الفا ظ رائج کر سکتا ہے ۔مثلاًآج کی تاریخ میںایک مخصوص جماعت ہندی اور سنسکرت کے الفاظ اوراصطلاحات رائج کرنے پر آمادہ ہے ،مثلاً،سنگیان ،نشچئے،آستھا ،پرتیشودھ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ سینکڑوں الفاظ ہمارے روزمرہ کی زبان کے دروازے پر دستک دیتے رہتے ہیںلیکن سماج میں وہی الفاظ اوراصطلاحات رائج ہو پاتے ہیں جنھیں سماج کے تمام طبقوں کے لوگ قبول کریں ۔     
زبان سے متعلق سوسئیر کے نظرئے پر بعد میںرومن جیکب سن، لوئی ہیمسلیو،نوام چامسکی،جولیا کرسٹیوا ، آلتھیوسے اور لاکاںوغیرہ نے اپنے اپنے طور پر ترمیم و اضافے کئے ۔گوپی چند نارنگ نے ’’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ میں زبان سے متعلق ان جدید ترین  نظریات  پر تفصیل سے بحث کی ہے ۔لیکن اردو میں آج بھی عبد القادر سروری کی کتاب ’’زبان اور علم زبان‘‘ سے ہی استفادہ کیا جاتا ہے۔ در اصل کسی بھی سماج میںانسانوں کی طرح زبانیں بھی سفر کرتی ہیں اور دوسری زبانوں اور بولیوںکے ساتھ الفاظ کا لین دین بھی کرتی ہیں اور سماج کے تغیرات ،تعصبات،توقعات اور خدشات کو بھی اپنے اندر سمیٹتی رہتی ہیں۔اسی لئے ہر زبان پر کئی کئی ز بانوں کے اثرات ہوتے ہیں ۔دوسری بات یہ کہ زبان کسی فرد واحد کی جاگیر ،کسی ایکانسان کی ضرورت یا خود کلامی نہیں ہوتی یعنی زبان کے لئے ایک فرد کے بجائے دو یا دو سے زیادہ افراد کی مو جودگی لازمی ہے ۔اس اعتبار سے زبان ایک سماجی وسیلہ ا ظہار ہے۔ورڈزورتھ نے  Preface to the Lyrical Ballade میں جہاں شاعری کو عقل و دانش اور وجدان و احساس کے امتزاج کا نتیجہ قرار دیا ہے  وہیں یہ بھی کہا ہے کہ شا عری کی زبان ایسی ہو جسے سماج میں لوگ سمجھ سکیںکیونکہ شاعر محض اپنے لئے یا دوسرے شاعروں کے لئے شعر نہیں کہتا بلکہ پورے سماج کیلئے کہتا ہے ۔ گویا ورڈزورتھ’’ شعر و ادب کی سماجیات‘‘ Sociology of Literatureکا حامی تھا۔دوسری بات یہ کہ شاعر یا ادیب کے مخاطب چونکہ سماج کے انسان ہی ہوتے ہیں لہذا شاعر یا ادیب کو مہذب اور موثر انداز میں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لئے بعض سماجی ضابطوںاور اصولوں کا پابند رہنا پڑتا ہے البتہ ان سماجی پابندیوں کا تعلق شا عر یا ادیب کے تصور و تخیل ا ور وجدان یا احساس سے نہیں ہوتا بلکہ اظہار و بیان ،اسالیب ،علامات اور اشارات سے ہوتا ہے ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ شعر و ادب میں موضوع،علامت،اشارے، کنائے وغیرہ ایسے استعمال کئے  جائیںجن سے نہ تو سماج کے کسی بھی طبقے کے جذبات مجروح ہوں اور نہ سماجی آداب اور قوانین کی خلا ف ورزی ہو۔’’آزادیٔ اظہار‘‘ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ رُشدی کے Satanic Versesکی طرح جب جو چاہے لکھاجائے ،یا پارلیمنٹ کے اند ر’رامزادے ‘کے ساتھ ’حرام زادے‘ جیسے ا لفاظ استعمال کئے جائیں۔ادب تخلیق کرتے ہوئے ادیب کو بہر حال سماج کے مختلف مذاہب کے لوگوں کے عقائد، اورسماجی ،تہذیبی و اخلاقی روایات اور اقدار کا لحاظ رکھنا ہی ہے لیکن اس کا ہرگزیہ مطلب بھی نہیں کہ ادب میں تجربہ یا ایجاد و اختراع کے دروازے بند کر دئے جائیں،اگر ایسا مان لیا جائے تو پھر ادب پر فرسودگی کا اندھیرا چھانے لگے گا،جو آخر کار ادب کی مو ت کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا ادب میں جو بھی تجربہ کیا جائے، یا کسی نئی روائت یانئے رحجان کی طرح ڈالی جائے تو اس میںاتنی قوت ،اتنی زر خیزی ہونی چا ہئے کہ وہ سا بقہ روایت یا رحجان کی جگہ لے سکے اور سماج میں قارئین اسے قبول بھی کر لیں ۔ اس کا صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ ادب کی تخلیق کرتے ہوئے ادیب کے پیش نظر اس کا سماج بھی ہونا لازمی ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے یعنی ادب تخلیق کرتے ہوئے ادب کے سماجی کردار کا خیال نہیںرکھا گیاتو پھر ادیب کی تحریر کو وقتی شور شرابہ،انفرادیاور عارضی تجربہ یا ادبی دہشت گردی قرار دے کر فرامو ش کر دیا جائے گا۔اردو ادب میںجدیدیت کے ا بتدائی دنوںمیں محمد علوی ،عادل منصوری ،اور ندا فاضلی اور مظفر حنفی وغیرہ نے تنہائی،نا وابستگی،بے سمتی ا ور فردیت (Individualism ) کے تصور کے تحت ،جو غزلیں اور نظمیں لکھیںوہ ادب کا حصہ نہیں بن سکیں،مثلاًیہ چند بدنام ِ زمانہ اشعاردیکھئے   ؎
 
سورج کو لے کے چونچ میں مُرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دئے رات ہو گئی  
ندا فاضلی
کھڑا تھا پاس جو برگد  کا پیڑ  برسوں سے
ندی کے پاس  وہ  ٹانگیں اُٹھا کے لیٹ گیا  
مظفر حنفی 
بدن بوند جب تک چمکتی رہی
 مسہری  سے باہر نہ نکلا وہ مچھر
ظفر اقبال
اسی طرح جدید افسانہ کے نام پر’’پورٹریٹ اِن بلیک اینڈ بلڈ،(بلراج مین را)،تلقارمِس(سریندر پرکاش ) مکھی،گبرولہ (احمد ہمیش)اور انٹرا موراسِس(ظفر اوگانوی) وغیرہ ایسے افسانے لکھے گئے جن میں انتہائی ذاتی،اجنبی اور نو تر اشیدہ الفاظ ، اصطلاحات استعارات،علائم وغیرہ کو سماج کے تمام تر تہذیبی،اخلاقی اور ادبی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر لچر،اور گھٹیا خیالات کا اظہار ،حد درجہ داخلیت پسندانہ(Introvert )  انداز میں اس طرح کیا گیا تھا کہ کوشش کے باوجود نہ تو ایسی تحریروں کی تفہیم ممکن ہو سکی اور نہ ہی سماج نے انہیںادبی تخلیق کے طور پر قبول کیا ۔                
در اصل ادب کے تخلیقی عمل کے تعلق سے ’’زبان‘ ‘ صرف اور محض اظہار (Expressin) یا ترسیلی نظام (Communicative System) ہی نہیں ،شاعر یا ادیب کے وجود کے اقرار و اعتراف اور شناخت و بازیافت کا ذریعہ بھی ہے ۔ہر شخص جانتا ہے کہ ا نسان کے لئے’وجود(Existense)  ایک اندرونی تجربہ ہے ۔انسان جو کچھ بھی ہے وہ اسی وقت بنتا ہے جب اپنے ہونے کا اقرار کرے۔اس اقرار کے بغیر انسان کا وجود زندہ اور متحرک ثابت نہیں ہوتا ،جب کہ انسان کا پہلا اور بنیادی کام سماج میں اپنے ْ وجود کی شناخت قائم کرنا ہی ہوتا ہے، باقی سارے کام اس کے بعد آتے ہیں۔اور انسان اپنے جس وجود کا اعتراف خود کرتا ہے اور سماج سے کرواتا ہے وہ کیا چیز ہے ؟وہ دراصل ایک رشتہ ہے سماج کے افراد اور اشیا کے ساتھ ۔ زبان اور ادب یہ رشتہ قائم کرنے  کے ہی وسیلے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ادیب یا شاعر جس زبان میں اپنی تخلیق پیش کرتا ہے ،خود وہ ز بان انسانوں کے سماجی عمل Soial Pro cess  کی فطری پیداوار ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ شاعر یا ادیب اپنے افکار و خیالات  کے اظہار و بیان کے لئے جس سلیقے سے کا م لیتا ہے اس کا تعلق اس ادیب کی اپنی منفرد اور ذاتی فنی مہارت اور جمالیاتی شعورکی پختگی  سے ہوتا ہے ۔ اسی لئے  میر و غالب ہوں یا اقبال اور جوش ناصر کاظمی ہوں یا شہر یار ،ہر بڑے شاعر کا اپنا ایک الگ ہی انداز ہوتا ہے جسے ادب میںرنگ، طرز ادا، اسلوب یا مزاج بھی کہا  جاتا ہے ۔مرزا غالب توچچا ہی تھے ، اپنے منفرد اسلوب کے بارے میں بجا طور پر ہی سہی خود ہی دعوی ٹھونک دیا کہ  ہیں اور بھی ،د نیا میں سخنور بہت اچھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِبیاں اور     
 (در اصل کوئی بھی شخص سماج کے مقرر کردہ اصول وشرائط کے مطا بق کسی بھی زبان میں ، کسی تجربہ یا مشاہدہ، جذبہ یا احساس کو فنی اور جمالیاتی در و بست کے ساتھ بیان کرتا ہے تو اسے ادب کہتے ہیں ۔ادب تخلیقی بھی ہوتا ہے اور غیر تخلیقی یعنی علمی بھی اسی لئے کسی بھی سماج کی کسی بھی زبان میں جوکچھ اور جتنا کچھ بھی تحریری شکل میں موجو د ہوتا ہے علوم انسانی یعنی Humanities   کہا جاتا ہے ۔)  در اصل کیسویںصدی میں انسانی علوم Humanities کے کسی بھی شعبہ، زبان، ادب ، فلسفہ یا مذہبیات  وغیرہ کسی بھی موضوع کا مطا لعہ عصری سماجی وثقافتی حوالوں  Contemporary Socio.Cultural References کے بغیر ناممکن ہے ۔
رابطہ :سابق صدر شعبہ اردوکشمیریونیورسٹی
(بقیہ بدھ کے شمارے ملاحظہ فرمائیں)