ایم ایس رحمن شمس
اگست ۲۰۲۴ءکے وسط میں سینٹرل یونیورسٹی کے رجسٹرار جناب پروفیسر محمد افضل زرگر کی رہائش گاہ صدرہ بل سرینگر کی صاحبزادی کی شادی خانہ آبادی کی تقریب کے موقعہ پر مدعو مہمانوں کے ٹینٹ میں مرحوم پروفیسر عبدالواحد قریشی بھی شریک ہوئے اور حاضرین سے علیک سلیک اور خیر و عافیت دریافت کی ۔ بظاہر سب ٹھیک ٹھاک تھا اور صحت بھی انکی ٹھیک لگ رہی تھی لیکن ۱۷نومبر ۲۰۲۴کو ذرائع ابلاغ سے یہ خبر نشر ہوئی کہ عبدالواحد قریشی اب دنیا میں نہیں رہے، اچانک دل کا دورہ پڑا اور کل نفس ذائقہ الموت کے ابدی اصول کے تحت راہ ملک عدم ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
پروفیسر عبدالواحد قریشی کا تعلق بنیادی لحاظ سے سرحدی علاقہ کنڈی کرناہ سے تھا ۔ مرحوم قریشی نے ابتدائی تعلیم اس دور میں حاصل کی، جب علاقہ بھر میں تعلیمی سہولیات کا زبردست فقدان تھا۔ مرحوم پروفیسر قریشی ۱۹۶۲ءمیں دسویں جماعت کا امتحان ہائی اسکول کنڈی کرناہ سے امتیازی نمبرات کے ساتھ پاس کیا پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے کشمیرکی گرمائی راجدھانی سرینگر آگئے، جہاں موصوف نے ایس پی کالج سرینگر سے گریجویشن کے بعد مادر علمی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا رخ کیا اور معاشیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور کچھ وقت کیلئے آپ ریجنل انجینئر نگ کالج سرینگر میں لیکچرار تعینات ہوئے ۔ اس کے بعد ۱۹۷۲ ءمیں کشمیر یونیورسٹی میں قدم رکھا اور ۱۹۸۷ ءمیں شعبہ معاشیات میں لیکچرار مقرر کئے گئے ۔ بعد میں شعبہ معاشیات کے سربراہ ، ڈین ، چیف کارڈینیٹر، پی جی پروگرام، کنٹرولر امتحانات اور ڈین اکیڈمک بھی رہے ۔ ایک بالغ نظر ماہر تعلیم ہونے کے ناطے پروفیسر قریشی کشمیر یونیورسٹی کے سینئر ترین استاد تھے وہ ۲۰۰۴ءسے ۲۰۰۷ ءتک اس عظیم دانشگاہ کے وائس چانسلر رہے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ۲۰۰۹ءمیں پانچ سال کیلئے سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کا وائس چانسلر بنایا گیا اور موصوف۲۰۱۳ء تک اس عہدے پر فائز رہے ۔
اس دوران مرحوم نے سینٹرل یونیورسٹی کو ہر سطح پر آگے بڑھانے کیلئے اپنے رفقا خاص طور پر سرکردہ ماہر تعلیم ، ممتاز قانون دان اور منتظم جناب ڈاکٹر معراج الدین میر جو پہلے ادارے کے رجسٹرار پھر قریشی صاحب کے بعد وائس چانسلر بنائے گئے کی انقلابی شخصیت کے ہمراہ ناقابل فراموش کارنامے انجام دیئے اور سینٹرل یونیورسٹی کو ہر لحاظ سے ایک مثالی ادارہ بنانے میںا پنی خدمات وقف رکھیں
بہر حال پروفیسر قریشی کی وفات سے علمی اور ادبی حلقے سوگوار ہیں اور ان کی کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں۔پروفیسر قریشی ایک انتہائی ملنسار ، خلیق ، خوش مزاح اور دیانتدار شخصیت کے مالک تھے ۔ کشمیر یونیورسٹی میں وائس چانسلری تک نگین اور ریٹائرمنٹ کے بعد مرحوم کی رہائش گاہ صدرہ بل میں میری اکثر و بیشتر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس دوران موصوف یونیورسٹی سے متعلق طلبا کے داخلے اور دیگر متعلقہ امورات کے حوالے سے اکثر و بیشتر اپنا بھر پور تعاون فرماتے اور اپنی وسیع الظرفی کے سبب ہر موقعہ پر بڑے تپاک سے ملتے اور جو بھی گزارش کی جاتی اس پر عمل فرماتے ۔
۱۹۹۰ءمیں کشمیر کے ہمارے عوامی مقبول عام رہنما شہید ملت میرواعظ مولانا محمد فاروقؒ کی ناگہانی شہادت کے بعد اہل کشمیر پر جو قیامت ٹوٹی اور انکا غم و ماتم ہر طرف جس طرح بڑے پیمانے پرمنایا گیا اس ضمن میں دوردرشن سرینگر بھی پیش پیش رہا اور ۱۲ مئی کو ہر سال شہید رہنما کی یاد میں ایک خراج عقیدت کا پروگرام نشر کیا جاتا رہا ۔ اس دوران میرواعظ کشمیر کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے راقم نے سلسلہ وار اور تواتر کے ساتھ جن اہم شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں اور انکے گرانقدر تاثرات مباحثہ کی صورت میں براہ راست live telecast کرائے ان میں مرحوم پروفیسر قریشی صاحب بھی تھے، جنہوں نے شہید ملت کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انکی گرانقدر دینی، ملی، تبلیغی اور سیاسی خدمات کو بھر پور الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔
مرحوم پروفیسر قریشی کی خصوصیت جو سب سے نمایاں تھی وہ میرے نزدیک انکی یکسوئی کے ساتھ اپنی مفوضہ ذمہ داریاں پوری کرنا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحوم محض اپنی قابلیت کی بنیاد پر کشمیر کی سب سے بڑی اور مرکزی دانشگاہ کشمیر یونیورسٹی کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچے تاہم شیخ الجامعہ کی کرسی کو زینت دینے کے باوجود موصوف کے اندر سادگی اور کسر نفسی اسی انداز کی رہی اور اپنے ملنے جلنے والوں کے ساتھ انکا رویہ ہمیشہ مشفقانہ ، دوستانہ اور برادرانہ رہا ، یاد پڑتا ہے۔ کئی بار دینی اور شرعی مسائل کے حوالے سے بعض اشکالات اور شبہات پر راقم سے بھی تبادلہ خیال فرمایا اور اس کم سواد کے علمی جوابات سے انکو تسلی اور تشفی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور مرحوم کے فرزندان اور لواحقین خاص طور پر انکے ہزاروں شاگرد اور متعلقین کو صبر جمیل عطا کرے ۔ آمین
حقیقت یہی ہے ؎
آدمی نشہ غفلت میں بھلا دیتا ہے
ورنہ جو سانس ہے پیغام فنا دیتا ہے