آپ کے الفاظ آپ کی شخصیت کے آئینہ دار

انسان کو اور کچھ کرنا آئے نہ آئے مگر اچھے بول بولنا ضرور آنا چاہیے،ایسے الفاظ جو اگلے بندے کی پریشانی کو ختم نا سہی مگر کچھ کم ضرور کر دیں۔انسان کی پہچان کپڑے اور جوتے سے زیادہ اس کے بولنے سے ہوتی ہے۔انسان کے بولنے کے انداز اور لہجہ سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کس طرح کا انسان ہے۔ کپڑے اور جوتے اپنا تعارف خود کرواتے ہیں کیونکہ یہ بیرونی طرف موجود ہیں لیکن آپ کو اپنا تعارف کروانے کے لیے اندر سے ہی الفاظ نکالنے ہوں گے کہ جو آپ کا تعارف کروائیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ خاموشی بھی ایک پردہ ہے۔ خاموشی نے آپ کے اوپر پردہ کیا ہوا ہے لیکن جوہی انسان بولتا ہے یہ پردہ ہٹ جاتا ہے اور انسان کی حقیقت عیاں ہوجاتی ہے۔صحیح مقام پر صحیح گفتگو کرنا بہت بڑا ہنر ہے اس ہنر پر محنت بھی بہت زیادہ لگتی ہے کیونکہ پانی کی طرح الفاظ کو بھی روکنا مشکل ہوتا ہے۔ جو انسان صحیح مقام پر صحیح بات کرتا ہے وہ فلاح میں رہتا ہے۔انسان کو صرف اتنا ہی بولنا چاہیے جتنی ضرورت ہو۔فضول بول کر اپنی اور اپنے الفاظ کی اہمیت کو کم مت کریں۔فضول بحث سے اجتناب کرنا چاہیے اور خاص طور پر طالبعلم کو کیونکہ فضول بحث وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔فضول بحث اس طرح ہیں جیسے تلوار ہے وہ آپ کے دشمن کے اوپر بھی چل سکتی ہے رشتے کے خاتمے کی صورت میں اور آپ پر بھی چل سکتی ہے۔شرمندگی کی صورت میں ایک اچھا انسان کبھی فضول بحث میں حصہ نہیں لیا کرتا وہ اپنے آپ میں ہی رہتا ہے اور اگر اس سے کوئی فضول بات کرے بھی تو وہ کنارہ کشی کر لیتا ہے۔فضول بحث کے ایک انسان پر درج ذیل نقصانات ہوتے ہیں۔
(1) وقت ضائح ہوتا ہے (2) جھگڑے کا خدشہ (3) کسی کی دل آزاری کا خدشہ ہوتا ہے (4) پریشانی کا سبب(5) دوستی یا رشتے کمزور ہوتے ہیں۔اس لیے ایک انسان کو ہرگز بھی فضول بحث نہیں کرنی چاہیے بلکہ وہ جتنا وقت فضول بحث پر ضائح کریگا اتنی دیر میں کچھ ایسا بھی کر سکتا ہے جس میں اس کو بہت فائدہ ہوں گے۔ذہن پرسکون رہے گا،
اپنا قیمتی وقت بچا سکے گا،اور جس شخص کو یہ دو چیزیں میسر ہوجائیں وہ دنیا کا عظیم شخص ہوگا کیونکہ ساری دنیا سکون کے پیچھے دوڑتی ہے۔اب ہمارا یہ المیہ بن چکا ہے کہ ہم اپنے کام کے علاوہ دنیا کے تمام کاموں میں اپنی مداخلت ضروری سمجھتے ہیں۔ جیسے کچھ لوگ ایک کرکٹ میچ پر تبصرہ کر رہیے تھے کہ اگر یہ کھلاڑی اس میچ میں اتنے رنز کرتا تو اس کی ٹیم میں جگہ بن جاتی۔دوسرا کہنے لگا تو بےوقوف ہے اس سے بہتر یہ کھلاڑی ہے اور پھر دونوں کی بحث شروع ہوگئی۔ دونوں فریقین کی جانب سے ایسے دلایل پیش کیے گئے اگر کرکٹ کی سلیکشن کمیٹی کو یہ دلائل پیش کیے جاتے تو وہ ضرور ان دونوں کھلاڑیوں کو ٹیم میں رکھ سکتی تھی۔تقریبا دو گھنٹے مسلسل بحث چلتی رہی بات جگڑے تک پہنچی ہی تھی کہ لوگوں نے آکر انہیں چپ کروایا اور دونوں منہ بنا کر گھر چلے گئے۔
اب ایک بندہ ٹھنڈے دماغ سے سوچے کہ کرکٹ کھیلنے والوں کو پیسے ملتے ہیں،اس میچ پر تبصرہ کرنے والوں کو پیسے ملتے ہیں،دکھانے والوں کو پیسے ملتے ہیں، لیکن ہم جو گلی میں اتنی طویل بحث ومباحثہ کرتے ہیں ہمیں پریشانی کے سوا کیا ملتا ہے؟آپ سب کچھ کر سکتے ہو ناممکن کو ممکن میں بدل سکتے ہو، لیکن یہ بات طے ہے کہ آپ کسی گزرے ہوئے لمحے کو کسی بھی قیمت پر ہرگز واپس نہیں لاسکتے، اسی لیے اپنے لمحوں کی حفاظت کریں۔
فضول بحث انسان کو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتی اس لیے خوش رہیں اور فضول بحث سے کنارہ کشی کر لیں اگر کوئی کوشش بھی کرے تو اسے کہیں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں،جو شخص جتنی کم بحث کرتا ہے اتنا زیادہ خوش رہتا ہے۔زندگی ایک کتاب ہے جس کا پہلا صفحہ پیدائش ہے اور آخری صفحہ موت ہے۔درمیانی صفحات خالی ہیں۔ ان میں جو پسند ہو وہ لکھیں۔ بس یہ خیال رکھے کہ جو کچھ ہم لکھیں وہ آخرت میں اللہ کو دکھاتے ہوئے شرمندگی نہ ہو۔
سوگن شوپیان،رابطہ۔(9070931709)
�����������������������