ریاست بھر میں آوارہ کتوں نے لوگوںکا جینا محال بنارکھاہے اور آئے روز بڑی تعداد میں لوگ ان کی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں تاہم نہ ہی حکام آوارہ کتوں کوٹھکانے لگانے کیلئے کوئی اقدامات کررہے ہیں اور نہ ہی ان کے زہر کاشکار بننے والے زخمیوں کووقت پر اینٹی ریبیز انجکشن ملتے ہیں۔نتیجہ کے طور پر دور دراز پہاڑی علاقوں میں ایسے حادثات میں زخمی ہونے والے افراد کو انجکشن حاصل کرنے کیلئے سینکڑوں میل کا سفر طے کرناپڑتاہے ۔گزشتہ کچھ عرصہ سے سرحدی ضلع پونچھ میں پاگل اور آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں زبردست اضافہ ہواہے اور منڈی، سرنکوٹ اور مینڈھر میں کئی لوگ ان کا نشانہ بن گئے لیکن اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان لوگوں کو مقامی سطح پر اینٹی ریبیز انجکشن نہیں مل رہے ۔یہ دوائی کافی عرصہ سے سرکاری ہسپتالوں میں سپلائی ہی نہیں کی جاتی جبکہ نجی دکانوں میں بھی سٹاک ختم ہوچکاہے ۔پچھلے دنوں ایک ایک انجکشن کیلئے لوگوں کو دربدر گھومتے دیکھاگیا اور کچھ نے پونچھ سے ڈھائی سو کلو میٹر دور جموں پہنچکر یہ انجکشن کروائے تو کچھ کو پورا کورس کرنے کیلئے دوائی ملی ہی نہیں ۔اس حوالے سے حکام کاکہناہے کہ اینٹی ریبیز دوائی کی سپلائی کچھ عرصہ سے اوپر سے ہی نہیں آئی ہے اور ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ جموں میں بھی یہ دوائی نایاب بنی ہوئی ہے ،جس کا فائدہ اٹھاکر کچھ نجی ادویہ ساز مجبور لوگوں سے منہ مانگی قیمت وصول کررہے ہیں ۔یہ مسئلہ اس لئے سنگین صورتحال اختیار کرگیاہے کیونکہ آوارہ یا پاگل کتے یا جانور کے کاٹنے کے فوراً بعد اینٹی ریبیز انجکشن لگوانا لازمی ہوتاہے نہیں تو اس کا زہر انسانی جسم میں سرایت کرنے کا احتمال رہتاہے ،جس سے متاثر ہ شخص کی صحت پر برا اثر پڑسکتاہے ۔اگر آوارہ اور پاگل کتوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے اقدامات کئے گئے ہوتے توایسے واقعات ہی پیش نہیں آتے لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے ۔ نہ ہی ان کتوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے کہیں پہ کام ہورہاہے اور نہ ہی دوائی فراہم ہو رہی ہے۔صورتحال کو سمجھتے ہوئے فوری طور پر اقدامات کرکے دوائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زخمی افراد کا علاج ہوسکے اور لوگوں میں پائی جارہی تشویش ختم ہو۔یہ ایک بہت بڑی پریشانی بنی ہوئی ہے کہ شہرو دیہات میں آوارہ کتے رات کو ہی نہیں بلکہ دن کو بھی لوگوں کو اپنا نشانہ بنالیتے ہیں اور انہوں نے ہر طرف ہڑبونگ مچارکھی ہے ،جس سے انسانی آبادی میں زبردست خوف پایاجارہاہے اور جہاں والدین بچوں کو سکول بھیجنے سے خوف کھاتے ہیں وہیں رات کے وقت اندھیرے میں باامر مجبوری بھی گھر سے باہر نکلنا مشکل ہورہاہے ۔ آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ لوگ گھروں اور ہوٹلوں میں بچا ہوا کھانا ایسے ہی سرراہ پھینک دیتے ہیں جو کتوں کی نشو ونما کا ایک سبب بنتا ہے۔ اس حوالے سے عام لوگوں کو سمجھدار ی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔توقع کی جانی چاہئے کہ روزانہ رونماہونے والے ان واقعات پر روک لگانے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کئے جائیں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آوارہ کتوں سے انسانی جانوں کو تحفظ دیاجائے اور اینٹی ریبیز انجکشن بہر صورت ہر ایک ہسپتال میں دستیاب رکھے جائیں کیونکہ یہ انسانی زندگی کا سوال ہے جس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔