جدید تعلیم کچھ دہائیوں پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہے۔تعلیم کا شعبہ گزشتہ چند دہائیوں میں جہاں بے پناہ تبدیلیوں سے گزر چکا تھا وہیں گزشتہ دو ایک برسوں میں اچانک ایک ایسا بدلائو آیا جس نے اس شعبہ کا نقشہ ہی بدل دیا۔روایتی تعلیم کی جگہ آن لائن تعلیم نے لے لی ہے ۔ ایک کلاس روم جہاں اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے تھے اور جہاں اساتذہ طالب علموں کے ساتھ طویل مدتی تعلقات استوار کرتے تھے ،وہ اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ اُن ننھے منے بچوں کا تصور کریں جنہیں کووڈ لہر آنے کے ساتھ ہی کنڈرگارٹن میں داخل کیا گیا تھا،وہ تاحال اپنی پہلی کلاس لینے کے منتظر ہیں کیونکہ جب سے سکول مسلسل بند ہیں۔ اگرچہ آن لائن تعلیم نے وقت کے ضیاع کی کافی حد تلافی کی لیکن ایک استاد اور ان کے طلباء کے درمیان تعلق تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ یہ چھوٹے بچے اب اپنے اساتذہ کو کچھ ڈیجیٹل آلات کے طور پر جانتے ہیںجنہیں وہ آواز اور تصویرکی حد سے اب زیادہ نہیں جانتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کوئی نہیں جانتا کہ ایک استاد ایسے بچوں کیلئے اصل میں کیا معنی رکھتا ہے۔وہ بچے جنہوں نے کچھ سال سکول میں گزارے ہیں ، لیکن اب وہ اس ڈیجیٹل موڈ پر ہیں ، انہیں ایک ٹیچر سے متعلق کافی تبدیلی محسوس ہورہی ہوگی کیونکہ اس طرح کے درد و تدریس سے وہ مکمل طور نابلد تھے اور انہوںنے کبھی سوچا بھی نہ سوچا کہ انہیں سکولوںکو چھٹی کرکے موبائل فونوںکے ذریعے اپنے اساتذہ کو سننا اور دیکھناپڑے گااور اسی موبائل فون کو اپنے جماعت کا کمرہ بنا کرکے تعلیم کا سفر جاری رکھنا پڑے گا۔ ایک بار ذاتی کلاسز دوبارہ شروع ہونے کے بعد یہ سکولوں کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ ابھی کے لئے حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مستقبل قریب میں کسی بھی وقت سکول کھولنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ حکام کیلئے تیسری لہر کے خدشات کے بیچ سکول کھولنا دانشمندی نہیں ہے۔ دوسری لہر کے المناک تجربات کبھی بھی کسی کو اس ضمن میں سہل انگاری سے کام نہیں لینے دینگے اور نہ ہی شاید کوئی اطمینان محسو س کرے گا کہ اب سب ٹھیک ٹھاک ہوچکا ہے اور ہمیں اپنے بچوںکو واپس سکول بھیجنا چاہئے کیونکہ ہمیں قطعی یہ نہیںبھولنا چاہئے کہ جموںوکشمیر خاص کرکشمیرصوبہ میں دوسر ی لہر کی شروعات تعلیمی اداروں سے ہوئی تھی اور ابتدائی ایام میں تعلیمی اداروں سے ہی کورونا کے کیس سامنے آنا شروع ہوئے تھے۔کوئی نہیں جانتا کہ سکول کھولنا اور درس و تدریس کے اصل موڈ پر واپس آنا کب مناسب ہوگا۔ اس وقت تک اساتذہ کو چاہئے کہ وہ نصاب مکمل کرنے کے علاوہ ، تعامل کے نئے عناصر کو شامل کر یں جو طلباء کے ساتھ انسانی تعلقات کی تعمیر میں معاون ثابت ہوں۔ تعلیم صرف ایک مقررہ کتاب کے مندرجات کو ختم کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ طلباء اور اساتذہ کے رشتے کو مضبو ط بناکر طلباء کی شخصیت کو ہمہ جہت پروان چڑھانا ہے۔ ایک استاد ایک طالب علم کے لیے زندگی بھر رہنمائی کرتا ہے اور یہ رہنمائی کا یہ عنصر اُس دور میں ختم نہیں ہوناچاہئے جب ہم اس ڈیجیٹل موڈ کے ذریعے تعلیم دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ڈیجیٹل موڈ روایتی تدریسی نظام کا قطعی نعم البدل نہیںہے ۔یہ مجبوری کی پیداوار ہے اور اس کو مجبوری کی حد تک ہی رکھنا چاہئے جبکہ اصل تعلیم کا ماحول کلاس روم میں ہی بنتا ہے جہاں استاد اور طالب عم بالمشاقہ ایک دوسرے سے گفتگو کرکے تعلیم و تعلم کے سفر کو آگے بڑھاتے ہیں۔آن لائن تعلیم کا سہارا ہمیں مجبوری کی وجہ سے لینا پڑا اور اس کو قطعی ایک مستقل عمل نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔اکثر والدین کی شکایت ہے کہ ان کے بچے اب موبائل فونوں کے عادی بن چکے ہیں اور اس کچی عمر کو اس نظام تعلیم کی وجہ سے جس طرح ہمارے بچوںکو مجبوری میںہی موبائل فونوںسے واسطہ پڑا ،وہ انتہائی تباہ کن ہے کیونکہ اب بچوںکو موبائل گیمز کی لت لگ گئی ہے اور وہ موبائل چھوڑنے کو تیار نہیںہے جس سے نہ صرف وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہورہے ہیں بلکہ ان کی بینائی اور ذہنی صحت بھی متاثر ہورہی ہے۔یونسکو کی حالیہ تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ موبائل کے ذریعے آن لائن تعلیم فائدے کے بجائے کم عمر بچوں میں نقصان کا موجب بن رہی ہے اور اس کے منفی اثرات زیادہ ہیں ۔ایسے میںہمیں اس امر کو بھی یقینی بنانا ہے کہ جہاں ہم مجبوری کی حالت میں بچوںکو آن لائن تعلیم دے رہے ہیں تو کہیں ہم تعلیم دینے کے اس عمل میں ان کا اصل میں نقصان ہی تو نہیں کررہے ہیں۔آن لائن تعلیم کو چھوٹے بچوں کیلئے تین کلاسز اورصرف ڈیڑھ گھنٹے تک محدود کرکے اچھاکام کیاگیا لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں مزید دیکھنا ہوگا کہ اس نظام تعلیم کے منفی اثرات سے بچوںکو کیسے بچایا جاسکے کیونکہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور ہم قطعی اپنے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔