ایک دن جموں کے شعراء پر گفتگو ہورہی تھی تو آزادؔ صاحب کہنے لگے: ادبی مجالس میں شمولیت ایک شاعرو ادیب کی مجبوری سمجھیں یا کمزوری مگر آج کے جموں کی زمین اردو شعر و ادب کے لئے کوئی زیادہ زرخیز نہیں۔یہاں دانش کدہ میں مشاعرے ہوتے ہیں ،تمام جہلاء کو اکٹھا کرکے جگن ناتھ آزادؔ کی صدارت رکھی جاتی ہے ،نہ کسی کو قافیہ ردیف کا پتہ ، نہ وزن معلوم ،پھر بھی چاہتے ہیں کہ آخر میں جگن ناتھ آزادؔاس پر مہر تصدق ثبت کرے ۔
آزادؔ صاحب اپنی عملی زندگی میں بے کلمہ مسلمان دکھائی دیتے تھے ۔میں نے ان کے گھر کے سارے کمروں اور ان کے بیڈ روم وکچن تک کو دیکھا ہے ،ان کے گھر میں جگہ جگہ آیات قرآنی کی مختلف نادر نمونے مثلاً آیت کریمہ ،سورۂ اخلاص،آیت الکرسی وغیرہ نہایت شکستہ خطاطی میں آویزاں تھیں ۔ یہ ان کے پاکستانی دوستوں نے ہدیہ کئے تھے۔وہ جب اسلام اوراسلامی تاریخ اور سیرتِ نبویؐ پر گفتگو کرتے تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں کسی بڑے عالم دین اور اسلامی دانش ور کے سامنے بیٹھا ہوں ۔انہوں نے اپنے والد کی سوانح عمری’’حیاتِ محرومؔ‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ میرے والد مرحوم کا جب دہلی میں انتقال ہوا تو ہندو رسم و ریت کے مطابق انہیں نہلا دھلا کر ایک پھٹے پر سفید چادر ڈال کر رکھا تو ہمارا خاندانی پنڈت آیا جس نے مجھے دھوتی بندھوا کر اگربتیاں جلا کر پکڑوائیں اور مخصوص انداز میں مجھے ان کے ارد گرد چکر کاٹنے کی ہدایت کی ۔ اپنے آبائی رسم و رواج اور خاندانی ریت کے مطابق میں نے وہ سب کچھ کیا جس پر زندگی بھر میرا کبھی یقین نہیں رہا ۔ایک دفعہ میں نے ان سے کہا:پروفیسر صاحب! آپ اسلام اور مسلمانوں کے کلچر و مذہب کو ہم خاندانی مسلمانوں سے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں اور اسلام کی حقانیت کا بھی آپ کو یقین ہے اور رسول کریم ﷺ کی شان میں آپ نے جوضخیم نعتیہ کلام’’ نسیم حجاز‘‘کے نام سے لکھا ہے، وہ بہت قابل قدر ہے ۔اسے پڑھ کر قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ ایک ہندو کی نعتیہ کتاب ہے ۔آپ باقاعدہ کلمہ پڑھ کر علی الاعلان حلقۂ اسلام میں داخل کیوں نہیں ہو جاتے ؟تو انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا اور پورا چھٹا کلمہ صحیح صحت و تلفظ و مخارج کی ادائیگی کے ساتھ پڑھا اور جب وہ اس فقرہ پر پہنچے واسلمت و اقول لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہتو انہوں نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور مصافحہ کرتے ہوئے کہا شمسی صاحب !آپ قیامت کے روز میرے ایمان کے گواہ ہوں گے مگر میری زندگی میں کسی سے اس کلمہ کا تذکرہ نہیں کرنا ،یہ میرے اور میرے رب کا معاملہ ہے ۔
آزادؔ اسلام اور اسلامی تعلیمات پر پورا عبور رکھتے تھے ۔وہ اقبال کو سمجھنے کے لئے پہلے قرآن اور سیرتِ رسولﷺ کو سمجھنا لازمی قرار دیتے ہیں ۔آزادؔ کی نعتیں ،سلام ،محفل نعت میں ایک شب میلاد النبیﷺ اور اس قسم کی دیگر اسلامی نظمیں ہیں جن میں ’’دہلی کی جامع مسجد ‘‘اور’’ بھارت کے مسلمان ‘‘خاص طور پر قابل ذکرہیں ۔ آزادؔکی وسیع القلبی اور وسعت ِنظر کی بہترین مثال ہے ۔یہ نظم جب ہندوستا ن کے مشہور علمی و تحقیقی مجلہ ’’معارف‘‘ اعظم گڈھ کے فروری ۱۹۵۲ ء کے شمارے میں شائع ہوئی تو شاہ معین الدین ندویؔ جیسے عالم دین نے اس پر یہ نوٹ لکھا ’’یہ نظم جس اخلاص سے لکھی گئی ہے اور جن شریفانہ اور اسلامی جذبات پر مشتمل ہے، وہ اس کا ثبوت ہے کہ تعصب و تنگ نظری کے اس تاریک دور میں بھی انسانیت کی شمع گل نہیں ہو ئی ہے کہ اس کا لکھنے والا گزشتہ انقلاب کا ستایا ہوا مغربی پنجاب کا ایک بے خانماں ہندو ہے۔ آزادؔ صاحب نے بہت دلچسپ حمدیہ کلام بھی لکھا ہے ، مجھے ان کی وہ حمد بہت عزیز ہے جو میں نے اپنی کتا ب’’چمن چمن کے پھول‘‘کے آغاز میں نقل کی ہے ۔اس کے دو شعر نمونے کے طور پر ملاحظہ ہوں ؎
ہر صبح کو ہوتے ہیں میری آنکھوں میں آنسو
دولت یہ مجھے وقت ِسحر کس نے عطا کی
آزادؔ ہر قسم کے مذہبی تعصبات اور ہندو کے چھوت چھات رسم و ریت سے اپنے تخلص کے مطابق آزاد تھے، چاہے وہ عام معمولات زندگی میں ہوں یا کھانے پینے کے طور طریقے ۔آزادؔ صاحب کے لاہورکے ایک دوست ڈاکٹر سلیم اختر صاحب لکھتے ہیں کہ’’آزادؔ۔۔۔۔۔ایک مرتبہ لاہور آئے تو میں نے انہیں اور چند احباب کو کھانے پر مدعو کیا ۔میری بیوی شامی کباب اتنے اچھے بناتی ہے کہ خود شامی بھی نہیں بناتے ہوں گے اور کالم کی صورت میں انتظار حسین سے سند حاصل کر چکی ہیں ۔اب یہ کیسے ممکن تھا کہ دعوت ہو اور شامی کبابوں کے بغیر ۔اچھے اور خستہ شامی کباب بڑے گوشت ہی کے بنتے ہیں ۔چنانچہ میری بیوی پریشان ہو کر پوچھنے لگی آزادؔ صاحب برا تو نہیں مانیں گے ؟
کیوں؟
شامی کباب بڑے گوشت کے بنتے ہیں نا۔تو کیا آزادؔ صاحب آزاد انسان ہیں ۔دیکھیں ناراض نہ ہو جائیں؟۔۔۔۔مجھے معلوم ہے وہ ناراض نہ ہوں گے ۔۔۔۔ناراض تو کجا آزاد ؔ صاحب کباب دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔۔۔سب سے پہلے ان کو شرف قبولیت بخشا اور کھانے کے بعد میری بیوی سے ان کی تعریف کی ۔۔۔اس دعوت میں انہوں بڑی دلچسپ بات بتائی ۔محمد طفیلؔ (مرحوم)مدیر ’’نقوش‘‘نے جب پہلی مرتبہ ان کا کھانا کیا تو ہندو سمجھ کر میز سبزیوں اور دالوں سے بھر دیں۔آزادؔ صاحب نے نگاہِ تاسف سے یہ اشتہار بہ منظر دیکھا اور طفیلؔ صاحب سے کہا ۔۔۔۔۔۔بھائی اگر یہی کچھ کھانا تھا تو پھر پاکستان کیوں بنایا تھا ؟
آزادؔ صاحب بر صغیر کے واحد ایسے شاعر و دانش ور تھے جو تقسیم ہند کے بعد سرحد کی دونوں اطراف بلکہ پاکستان میں زیادہ مقبول اور پڑھے جاتے اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ تقسیم کے بعد انہوں نے پاکستان کے درجنوں اسفار کئے ،علمی و ادبی مجلسوں میں شرکت کی اور ماہر اقبالیات کے طور پر اقبال صدی کے حوالے سے بڑی بڑی کانفرنسوں اور نمائشوں کا افتتاح کیا ۔حکومت پاکستان اور پاکستان کے اہل علم و ادب نواز طبقے نے انہیں روایتی خلوص و محبت کے سوغات بخشے جن کا وہ اکثر بڑا لطف لے لے کر تذکرہ کیا کرتے تھے۔اہل پاکستان کی جگن ناتھ آزادؔاور جگن ناتھ آزادؔکی پاکستان اور اہل پاکستان سے محبت لازم و ملزوم تھی ۔انہوں نے پاکستان کی ایک ادبی مجلس میں کہا تھا کہ میرا پاکستان سے یہی رشتہ ہے جو ایک خاندان کے افراد کے افراد کے درمیان ہوتا ہے ۔یہ رشتہ صرف زبان و ادب کا رشتہ نہیں ہے بلکہ خون کا بھی رشتہ ہے میری شاعری اور نثر کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ میں نے یہاں سے جانے کے بعد کیا محسوس کیا ؟اس حوالے سے آزادؔ صاحب کا یہ شعر ملاحظہ ہو جس میں ان کے پاکستانی دوستوں کی محبت کا جذباتی اظہار ہے ؎
کیا خبر کیا بات اس کے کفر میں پوشیدہ تھی
ایک کافر حرم والوں کو یاد آیا بہت
رابطہ :مضمون نگار :چیئرمین الہدیٰ ٹرسٹ راجوری ہیں۔
فون نمبر:7006364495
باقی باقی