آل احمدسرور اردوتنقید کی ایک برگزیدہ شخصیت ہیں۔ سرور صاحب ترقی پسندی سے الرجک رہے نہ اس طوفان میں خس وخاشاک کی طرح بہے۔ ساٹھ کے بعد جدیدیت کا رجحان تیزی سے بڑھنے لگا۔ ترقی پسند ناقدین نے اس رجحان کوروکنے کی کوشش کی۔ سرور صاحب نے لکھنے والوں سے بھی کشادگیٔ قلب ونظر کے ساتھ ملے۔ جس طرح انھوں نے ترقی پسندوں کی انسان دوستی کوقبول کیا اور ادعائیت سے دامن بچایاتھا اسی طرح جدیدیت پسندوں کے کارناموں کوسراہا مگرنکسلائٹ بننے کے لیے تیارنہ ہوئے۔ ان کی وسعت نظر، کشادگیٔ قلب ونظر اور اپنی نظرسے وفاداری کارشتہ استوار رکھنے کانتیجہ ہے کہ وہ مختلف اور متضاد بلکہ متصادم رجحانات کے علمبردار حلقوں میں محبوب اور محترم رہے ہیں۔ اس فکری و عملی توازن کے پس پردہ یہ بات نہیں ہے کہ وہ تھوڑی دورہر راہ روکے ساتھ چلنے لگتے ہیں بلکہ یہ ایک سوچا سمجھااور ذاتی غوروفکر کے بعد اختیار کیاگیاراستہ ہے۔’ ’مسرت سے بصیرت تک‘ ‘ کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں:
’’ادب میری محبت ہے…کہاجاتا ہے کہ کسی آدمی یاادارے یاقوم کو پہچاننے کے لیے پہلے اس سے محبت ضروری ہے… یہی محبت عرفان کی منزل تک لے جائے گی اور محبوب کی خوبیوں اور خامیوں دونوں سے آگاہ کرے گی۔‘‘
بیسویں صدی میں چوتھائی صدی گزرنے کے بعد ہمارے یہاں نظریات کی گھٹائیں گھرآئیں اور ادعائیت کے جھکڑچلے۔ اس طوفان خیز ماحول میں جوچیز ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے وہ یہی ’محبت‘ ہے۔ سرور صاحب کولاگ اور لگائو کی جگہ ’عرفان‘ سے رشتہ استوار کرتادیکھ بے پایاں مسرت کااحساس ہوتاہے۔ آج اردو میںتنقید کی ایک بنیادی صفت ’معروضیت‘ کابہت چرچاہے۔ معروضیت کادعویداریوں توہرشخص ہے مگر اس کا اختیار کردہ راستہ اس کی سمت بدل دیتا ہے۔ ’محبت سے عرفان‘کی سمت جوراستہ جاتاہے وہی معروضیت کاراستہ ہے۔ یہ راستہ اردوشعروادب میں بہت کم لوگوں نے ڈھونڈنکالا ہے۔
اس محبت کے راستے سے عرفان کی جس منزل کی طرف نقادسرورصاحب پہنچتے ہیں اس کااندازہ ذیل کے اقتباس سے لگایاجاسکتاہے۔ ’مسرت سے بصیرت تک‘ ہی میں رقم طراز ہیں:
’’اردوشاعری پرمیر کے جواحسانات ہیں ان کااحساس عام ہے مگر ان کا عرفان کم ملتا ہے۔‘‘
میں نے سرور صاحب کی تنقیدنگاری کوسمجھنے کے لیے تمام نوٹس ’مسرت سے بصیرت تک‘سے لیے ہیں۔ معاملہ دراصل یہ ہیکہ اس کے بعدان دیگر تصانیف پڑھنے کے بعد مزید نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیںہوئی۔ اب آئیے ذیل میں ان کے تنقیدی نظریات کاجائزہ لیں۔
سرور صاحب کے نزدیک شعری تنقید سے کیامرادہے یہ سمجھنے کے لیے میں ذیل میں دو اقتباسات نقل کرتا ہوں۔
۱۔ اپنے مضمون ’نئی اردوشاعری‘ میں لکھتے ہیں:
’’اس مقالے میں نئی اردو شاعری کاایک مختصرجائزہ تین عنوانات کے تحت لیا جائے گا۔ نئی شاعری کیوں؟ نئی شاعری کیا؟ نئی شاعری کیسے؟ اور سچی بات یہ ہے کہ تنقید خواہ نئی شاعری کی ہویا پرانی شاعری کی انہیں تین سوالوں کے جواب کی کوشش ہوتی ہے۔‘‘
۲۔ ایک اورمقالے’میر کے مطالعے کی اہمیت‘ میں لکھا ہے:
’’میرکے متعلق کچھ کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ آسان اس لیے کہ میر کی عظمت کا تجزیہ یااس کا سائنٹفک مطالعہ ابھی تک پورے طورپرنہیں ہوسکاہے۔ کسی شاعر پر تنقید کے لیے سب سے اہم اس کا کلام ہے لیکن اس کے لیے شاعر کے حالات زندگی، اس کی شخصیت کے نمایاں پہلو، اس کے ماحول، اس سے پہلے کی شاعری کے اسالیب، سب کو ذہن میں رکھنا پڑتاہے۔ ڈاکٹرجانسن کایہ خیال غلط نہیں ہے کہ زمانہ کسی شاعر کو یوں ہی اہم قرار نہیں دیتا مگر اسے آنکھ بندکرکے تسلیم کرنے سے فکر کی راہیں بندہوجاتی ہیں اور تنقید میں ایک تقلیدی رنگ آجاتا ہے جوادب کی ترقی کے لیے مضر ہے۔‘‘
ان اقتباسات کی روشنی میں ہم مندرجۂ ذیل نتائج اخذکرسکتے ہیں:
۱۔ نقاد کے لیے یہ جانناضروری ہے کہ زیرمطالعہ فن پارے کے محرکات کیا ہیں؟
۲۔ اس فن پارے کے مضمرات کیا ہیں؟
۳۔ اس فن پارے کی قدروقیمت کیا ہے؟
ان باتوں کاجواب پانے کے لیے ان کاطریق کار یہ ہے کہ:
۱۔ مسلمات پرایمان بالغیب نقاد کا شیوہ نہیں بلکہ اس کے لیے فن پارے کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
۲۔ اس تجزیے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نقادشاعر کے حالات زندگی اور اس کی شخصیت کے نمایاں پہلوئوں سے واقف ہو۔
۳۔ نہ صرف زیرمطالعہ شاعر کاکلام بلکہ ماقبل کی شاعری کے اسالیب سے بھی اس کو واقفیت ہو۔
۴۔ ایمان بالغیب سے تنقید، تقلید کا شکارہوجاتی ہے ۔ نتیجتاً ادب منفی طورپرمتاثر ہوتا ہے۔ شاعری کیا ہے؟
سرور صاحب کے نزدیک شاعری نہ وقت گذاری کامشغلہ ہے، نہ تفریح کا ذریعہ۔ وہ شاعری کوذہنی عیاشی سمجھتے ہیں نہ سیاسی، سماجی، معاشی نظریات کی تبلیغ نہ فلسفہ کی باندی نہ مذہب کی چاردیواری میں مقید خانہ زاد۔ ادب کے یہ غیرادبی معیارات اردو تنقید میں جابجا کھڑے ہوئے ہیں۔ تعجب خیزبات یہ ہے کہ نظریات آج بھی اردو تنقید میں جمے رہنے کے درپے ہیں۔ سرور صاحب نے کلاسیک کامطالعہ بھی ان اصولوں کی روشنی میں کیا ہے جو جدید شعروادب کے لیے بھی صحیح میزان بن سکتے ہیں۔ ذیل میں چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں جن کی روشنی میں سرورصاحب کے تصور شعر کوسمجھاجاسکتاہے۔
۱۔ اپنے ایک مضمون ’فیض ایک باشعور اور صاحب طرزشاعر‘ میں رقم طراز ہیں:
’’میں شاعری کی بصیرت کومانتاہوں مگرفراسٹ کی طرح اس شاعری کا قائل ہوں جو پہلے مسرت اور پھر بصیرت عطاکرے۔ محض بصیرت کی دعوت میںکشش نہیںہوتی۔ ہاں مسرت کی تلاش عام ہے۔ جو مسرت کوبصیرت بھی عطاکردے وہی سچا شاعر ہے۔‘‘
۲۔ اسی کتاب میں اپنے مضمون ’میر کے مطالعے کی اہمیت‘ میں لکھتے ہیں:
’’میر اس لیے بڑے شاعرنہیں ہیں کہ وہ ماحول کے مصورہیں۔ وہ اس لیے بڑے شاعر ہیں کہ ان کے اشعار اس بھرپور احساس سے لبریز ہیںجوزندگی کی گہری بصیرت سے حاصل ہوتا ہے۔ جوحالات اور واقعات کی نشاندہی نہیں کرتابلکہ ان کے پیچھے جوذہنی دنیا ہے اس کا دروازہ ہمارے لیے کھول دیتا ہے۔‘‘
۳۔ اسی کتاب کے دیباچے میںتحریرفرماتے ہیں:
’’اگرشاعری کی مخصوص بصیرت کوتسلیم کرلیاجائے اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ یہ نہ کسی اور علم سے کمتر ہے نہ برتر مگر اس کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی اورباطنی حقیقت تبدیل بھی ہوگی اور اس تبدیلی کے باوجود انسان کی روح کے بعض تاروں کوہمیشہ چھیڑتی رہیں گی تونہ شاعری کوسیاست کے کسی پیرائے میںدیکھا جائے گا نہ سماج کے کسی مخصوص آئینے میں نہ فلسفے کے کسی نظام میں، نہ مذہب کے کسی مخصوص اور امرونواہی کے سلسلے میں اور پھر یہ بھی ہوگا کہ بڑی شاعری کے لیے یہ شرطیں نہ لگائی جائیں گی کہ وہ مذہب سے کیوں غذاحاصل کرتی ہے، مارکس سے کیوں نہیں یامارکس کانام کیوں لیتی ہے مذہب کاکیوں نہیں لیتی۔ شاعرسے ہمارامطالبہ صرف یہ ہوگا کہ وہ اپنی نظر سے وفادار ہو۔‘‘
مندرجۂ بالا اقتباسات کی روشنی میں ہم مندرجۂ ذیل نتائج اخذکرسکتے ہیں:
۱۔ شاعری مسرت اور بصیرت کے امتزاج کانام ہے۔
۲۔ شاعری ماحول کی تصویر کشی یاصحافتی رپورٹنگ کانام نہیں ہے۔
۳۔ شاعرانہ بصیرت، سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی اورفلسفیانہ نظریات کی بازگشت نہیں ہے بلکہ تجربات حیات سے، احساس کے وسیلے سے حاصل شدہ ادراک کا نام ہے۔
یہ نظریات مذہبی ہویاسماجی علوم سے متعلق ہوں شاعری کی شناخت میںہماری کوئی مدد نہیں کرتے۔
سرور صاحب بڑی شاعری اور معمولی شاعری کا پیمانہ بھی وضع کرتے ہیں ان کے نزدیک معمولی شاعر یا دوسرے درجے کا شاعر شعروادب کے معین آفاق میںچہل قدمی کرتا ہے جبکہ بڑاشاعر اس گھیرے کوتوڑکرنئے آفاق دریافت کرتاہے گویا فکری بلندپروازی بڑی شاعری کے موجب ہوتی ہے۔ ذیل میں چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ مضمون ’میر کے مطالعے کی اہمیت‘ میںفرماتے ہیں:
’’اول و دوم درجے کے شاعروں میںایک فرق یہ بھی ہے کہ اول درجے کا شاعر کچھ کلیدی الفاظ رکھتاہے جس کی وجہ سے اس کی شاعری میں ایک جدت، تازگی اور طرفگی کا احساس ہوتا ہے۔ دوسرے درجے کے شاعر روایتی کلیدی الفاظ کوکامیابی سے برت لینا کافی سمجھتے ہیں۔‘‘
۲۔ اسی مضمون میں تحریرفرماتے ہیں:
’’فن کی بہار، فکرکی حنا بندی کے بغیروجود میں نہیںآتی۔ میرکافن اس لیے برگزیدہ اور بلند پایہ ہے کہ ان کے آئینۂ فکر میں پرخلوص جذبات کاجوہر ہے اور یہ تجربات ذاتی ہوتے ہوئے بھی ایک عمومی رنگ رکھتے ہیں۔‘‘
۳۔ مضمون ’غالب اورجدید ذہن‘ میں تحریرفرماتے ہیں:
’’ایک فن پارہ اسی نسبت سے آفاقی ہوتا ہے جس نسبت سے اس میں خصوصی تجربہ ہوتا ہے۔ مگر یہ تجربہ فیشن یا فارمولے یا گروہ کے خیالات کی پاسداری کی وجہ سے نہیںبلکہ اس کے اپنے دل گداختہ سے پگھل کرنکلتاہے اس لیے بنیادی شرط فنکار کے خلوص اور اس کی نظر اور اس نظر کے قطرے میںدجلہ کے امکانات دیکھنے کی صلاحیت کی ہے۔ فنکار سے محض شدید جذبات یامانگے ہوئے اجالے سے چراغاں کرنے کی توقع غلط ہے۔ اس سے اخلاقی پیام یا امید کی کرن مانگنا بھی بے سود ہوگا۔ یہاں محض الفاظ کی خوبصورتی کابھی سوال نہیں ہے جو خیال کے ہمراہ ہوتی ہے اور اسے خوشگوار بناتی ہے۔ یہاں اصلی سوال فنکار کی بصیرت اور اس بصیرت کی گہرائی کا ہے اور اس کے حسیات کے دائرے کا۔ اسی کو پائونڈ interpretative power یعنی اس کی زندگی کی ترجمانی کی صلاحیت کہتاہے۔ ہمیں شاعر سے یہ مطالعہ کرنے کاحق نہیں ہے کہ ہمیں تسلی دے یا نجات اور اگر شاعر تسلی یا نجات کی خاطراپنے خصوص تجربے کو توڑتا مروڑتا ہے تواپنے اورفن دونوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔‘‘
ان اقتباسات کی روشنی میں ہم مندرجہ ذیل نتائج اخذکرسکتے ہیں:
۱۔ بڑے شاعر کے یہاں حسیات کادائرہ وسیع ہوتا ہے۔
۲۔ بڑی شاعری فکری بلندپروازی کے بغیر ممکن نہیں۔
۳۔ مانگے تانگے کے خیالات اور افکار کی بجائے بڑے شاعر کے یہاں ادراک ذاتی تجربوں کاحاصل ہوتا ہے۔
۴۔ بڑے فنکارکی اچھوتی فکرنئی لفظیات میںظہورپذیر ہوتی ہے یعنی بڑی شاعری نئی لفظیات بھی اپنے ساتھ لاتی ہے۔
سرور صاحب نے نظم اور غزل کے فرق، شاعری اور الفاظ کاتفاعل وغیرہ موضوعات کوبھی اپنی عملی تنقید میں چھیڑنے کی کوشش کی ہے مگرسچ یہ ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیںہوئے ہیں۔ جس طرح ان کے بعد آنے والی نسل کے ناقدین میں وزیر آغا نے علم الانسان کی روشنی میں اور شمس الرحمن فاروقی نے ہیتی تنقید کے طریق استدلال سے نظم اور غزل کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، سرور صاحب کے یہاں ایک واضح فرق کو گرفت کرنے اور نتیجہ اخذکرنے میںکامیابی نہیں ملتی۔ شاعری اور الفاظ کے مابین تعلق پر بھی سرور صاحب کی گفتگو عمومیت زدہ ہے اور شبلی اور وزیرآغاکی طرح پردے اٹھانے کا عمل نہیں بن پاتی۔
میں نے سرور صاحب پر گفتگو کاآغاز معروضیت سے کیاتھا۔ یہ معروضیت سرور صاحب کے یہاں بڑی حدتک موجودہے مگرکہیں کہیں ان کی تنقید عمومیت زدہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ سرور صاحب نے حسرت کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’انھوں نے شہرتیں عطاکیں اور تاج اتارے۔‘‘ نقادکوبھی یہی کام کرناہوتاہے مگرافسوس کہ سرور صاحب تاج اتارنے کے کام سے ڈرتے رہے۔ ہم دیکھ آئے ہیں کہ وہ آنکھ بندکرکے مسلمات پرایمان لے آنا بھی نقاد کے منصب کے منافی سمجھتے ہیں مگر اکثرواقعات وہ اس کے برعکس کام کرتے ہیں مثلاً جگر کامحاکمہ کرتے ہوئے وہ جگر کے تاج کوبرقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی تنقید عمومیت کا شکار ہوجاتی ہے۔ وہ جگر کی شاعری سے بحث کرتے ہوئے بہتیرے سوالات اٹھائے ہیں مگرایک کابھی جواب نہیںدے پاتے۔ ایک اقتباس ان کے مضمون ’جگر مرادآبادی‘ سے ملاحظہ فرمائیے:
’’جگر کے یہاں تغزل اور سرمستی کی طرف میں اشارہ کرچکاہوں لیکن تغزل اور سرمستی تو دوسرے کے یہاں بھی ہے۔ آخر جگر کی انفرادیت کیا ہے؟ جگر کی اپنی آواز کون سی ہے؟ وہ تھرتھراہٹ، وہ لئے کیا ہے؟ جسے ہم ہزاروں آہٹوں اور کروٹوں میں پہچان لیں۔ جگر نے عشق کی انانیت اور خودداری پرباربارزوردیاہے… مگریہ جگر کاکارنامہ نہیں ہے… جگر نے اردو غزل کی ساری صالح روایات کوجذب کرکے انہیں ایک لطیف تبسم اور دلکش رمز بنا دیا ہے … اس کی معنویت، رمزیت اور تاثیر میر، مومن، داغ، حسرت سے آشناہوئے بغیر واضح نہیں ہوتی مگران روایات کے ساتھ اور ان کے باوجود ایک نئی صحت مند، شگفتہ اور پرکیف اشاریت رکھتی ہے جواس کی اپنی ہے۔‘‘
اشاریت،رمزیت، پرکیف تبسم، پرکیف اشاریت! کیایہ تنقیدی محاکمہ ہے؟ یہ وہی غیر تنقیدی باتیں ہیں جنھیں وزیرآغاجراحی کے صدیوں پرانے آلات سے تعبیر کرتے ہیں۔ بہرحال آل احمدسرور ترقی پسندتنقید اور جدید تنقید کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس پل کوعبورکیے بغیر اردوتنقید کاکارواں آگے نہیں بڑھ سکتاتھالہٰذا سرور صاحب کی تنقید کی اہمیت سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔
رابطہ :بی، کوہ نور کالونی، پوسٹ وی ایم وی، امراوتی
Mobile :7304755117
E mail : [email protected]