جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے تو صاف طور پر سمجھ لینا چاہیے بلکہ یہ سمجھا سمجھایا ہوا ایک خوبصورت پہلو ہے کہ حال فی الحال یہ ایک ایسی سیاسی جماعت رہ چکی ہے جو ملک میں ہونے والی تمام تر سیاسیسرگرمیوں کی عینی شاہد بھی ہے اور بے بسی کی منہ بولتی تصویر بھی ،ساتھ ساتھ ان سارے معاملات کی علمی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش ہے۔ مگر سیاسی اعتبارسے اپنے تشخص کی لڑائی اور حالات سے مقابلے کی اس وقت تک کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی جس سے دیکھتے ہوئے کانگریس سے کوئی بڑی امید قائم کی جا سکے۔ ملک میں ہونے والے عمومی معاملات مہنگائی کی مار ،کسانوں کی حالت اورقانونی پیش رفت کو کانگریس بھی پایا نجیر ،چچا فقیر اور پاگل مہوند حسین کی طرح ہی دیکھ ، سمجھ اور پرکھ رہی ہے جو کہ بی جے پی اس وقت نہیں کر رہی تھی جب اس کی انگلیوں پر گنے جانے والے امیدوار ہی پارلیمنٹ پہنچتے تھے۔ ایسے حالات میں کوئی کانگریسی ہی اگر کانگریس کے لئے سر درد بن جائے تو سمجھ لیں کہ وہ سر درد کے بجائے برین ٹیومرکے مترادف ہوچکا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ راہل گاندھی کی لیڈرشپ کو ابھی تک خود کانگریس نے ہی قبول نہیں کیا ہے تو ملک کے ووٹرز پر وہ شکوہ کیوں کریں اور کس بات پر کریں گے۔ایک طرف مودی صاحب ہیں جنہیں بھاجپائی بھگوان کی طرح پوجنے تک بھی نہیں جھجکتے تو وہیں دوسری طرف بیچارے راہل جی ہیں جنہیں کانگریسی اپنا لیڈر تسلیم کرنے سے نہ کہ صرف کتراتے ہیں بلکہ بغاوت کے علم لیے کھڑے ہیں۔
جہاں تک کانگریس کے دگج ، سینئر، سابق لیڈر آف اپوزیشن اور بعض اندھ بھکتوں کے لئے قبلہ و کعبہ غلام نبی آزاد صاحب کا تعلق ہے تو میرے خیال میںوہ ایک ہی وقت میں تین لڑائیاں لڑرہے ہیں، یعنی کانگریس سے ،کانگریس میں اور کانگریس کے لئے۔ لیکن کانگریس کے حق میں ان کے اس سنگرش کے ہمراہ ایک چوتھی لڑائی بھی ہے جس کا تعلق صرف اور صرف ان کی قد آور شخصیت سے ہے۔ آزاد صاحب خدا نہ کرے اگر ملک کے صدر کی دوڑ میں نہیں ہیں تو بہر صورت ایک عظیم مقصد کی طرف ضرور گامزن ہیں جس میں ممکن ہے کہ جموں و کشمیر کے لئے اپنی پارٹی اور دوسری بھاجپائی طاقتوں کی مضبوطی کا ارادہ مضمرہو۔ ہم دعا گو ہیں کہ یہ سب قیاس اوراوہام ہی ثابت ہوں۔ لیکن بھاجپا کے حق میں یا اس کی وجہ سے بہایا گیا کوئی بھی آنسوپڑارائیگاں نہیں جاتااور زعفرانی رنگ و روغن سے کبھی پاک نہیں ہوسکتا اس کے لئے تاریخی شواہد اور حالیہ تجربات بھی موجود ہیں۔
جموں میں آزاد صاحب کا اظہار اور ان کی دودھ سے دھلی دھلائی مقدس پگڑیوں کی رنگت کے ہمراہ سنہا صاحب ، شرما صاحب، کپل سپل اور خود آزاد کا ایک سٹیج پر ٹھیک اس وقت حاضر ہونا جبکہ گزشتہ ڈی ڈی سی الیکشن میں ضلع جموں کے اندر کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی تھی یہاں تک کہ ان کی لیڈرشپ راجوری اور پونچھ میںبھی اپنے چیئرمین تک نہیں بنا سکی تھی کسی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ اور پھر ضلع جموں میںابھی دور دور تک کوئی الیکشن بھی نہیںہونے والا جبکہ کانگریس ملک کی دوسری پانچ ریاستوں میں سیٹ سیٹ کو ترس رہی ہے سوائے مودی جی کی تعریف کے کیا مقصدسمجھا جا سکتا ہے۔جموں و کشمیر جو کبھی ایک ریاست تھی آج کسی معمولی گاؤںکے نمبردار کی جاگیر سے کم نہیں رہ گئی ہے۔یہاںملکی سطح کے پانچ ،آٹھ نیتائوں کا مودی کی تعریف میں آزاد صاحب کے ہمراہ رطب اللسان ہونا کس طرف اشارہ سمجھا جائے ،ابھی تک کوئی یہ نہیں سمجھ پایا۔
جموں و کشمیر کے بے روزگار نوجوانوں کا غم و غصہ ایک طرف ریاست کی بحالی کا مطالبہ دوسری جانب اور پریشان حال لوگوں کا نا موافق حالات سے نمٹنے کا سلسلہ بر طرف رکھتے ہوئے اس طرح کے جلسے کا انعقاداور گوجر قوم کو یہ کہنا کہ وہ اپنی شناخت نہ بھولے، یہ سب بے سود جملے، بے تکے جذبات اور فقیر کی بھڑ تو ہر گز نہیں ہو سکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ اس میں پوشیدہ وہ تمام رموز و اسرار بھی عوام کے درمیان چہ میگوئیوں کا وسیلہ بنیں گے اور بن رہے ہیں۔ شاہنواز چوہدری صاحب کے ساتھ ساتھ ریاست کے دوسرے نوجوان کانگریسیوں نے آزاد صاحب کی مخالفت میںجو آوازیںبلند کیںان کا تعلق بھی محض ایک معمولی پروٹسٹ سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
ممکنہ طور پر جموںوکشمیرمیںاسمبلی انتخابات ہونے چاہئیں۔ اور اگر وہ ہوں گے تو کیا عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بر طرف رکھتے ہوئے آزاد صاحب الگ سے کوئی محاذ قائم کریں گے ؟ ایسا نہیں ہوگا اور اس پر اتفاق نہیں کیا سکتا۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو آزاد صاحب کا یہ جلسہ جموں کے ساتھ ساتھ کشمیر میںبھی اسی جوش ولولے اور مودی جی کے لئے انہیں کلمات سے ہوتا جو جموں میں کہے گئے ہیں۔ظاہر ہے کہ وہ ایسا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ تو یہ سمجھنا کہ وہ کانگریس کے بیچ رہ کر ایک اور کانگریس کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن آزاد صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ اس سے ملکی سطح پر انہیں کوئی فایدہ نہیں بلکہ مزید نقصانات اٹھانے پڑسکتے ہیں۔ آزاد صاحب ابھی تک بی جے پی کے ساتھ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے بی جے پی میں جانے سے بھاچپا کاکوئی اٹکا ہوا بڑا لقمہ نگلنے کی صورت نکل رہی ہے۔ وہ ایک سیاسی جماعت سے ہیں اور اسی میں اپنا قد ثابت کرنے کی تگ و دو میں نظر لگے ہیں۔ لیکن جموں میںان کا جلسہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کا تھا اور نہ ہی جموںوکشمیر کی بہتری کے حق میں بلکہ خوداپنا جلوہ تھا جس سے کانگریس کی عینک سے نہیں دیکھا جاسکتا۔
آزاد صاحب ملک کے صدر بنیں وہ اس عہدے کے حق دار بھی ہیں مگر کانگریس کو ڈبونے کے عوض ان کی یہ کامیابی شاید ملک کے حق میں ثابت نہ ہو۔ مزید یہ کہ ایسے حالات میںجموں و کشمیر کے عوام سے ان کی ایسی ہمدردیاں کانگریس کو تاریکی کے دہانے پر لے جا سکتی ہیں جو کسی بھی کانگریس پسند ملک پرست اور حوصلہ مند آدمی کے لئے کثیر الجماعتی نظامِ سیاست میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
(مضمون نگارجواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی میں ریسرچ سکالر ہیں)
�����