ثانیہ نے آصف سے ایک گھنٹے طویل گفتگو کرنے کے بعد موبائل میز پر رکھا ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی پھر بجنے لگی. اس نے منھ بسورتے ہوئے موبائل اٹھایا دوسری طرف ارسلان بول رہا تھا۔
وہی ارسلان جس کے فون کا انتظار یہ کبھی بڑی شدت سے کیا کرتی تھی اور پھر سلسلہ گفتگو اسوقت تک چلتا جب تک موبائل کی جان نہ نکل جاتی، پھر بھی باتیں ادھوری رہ جاتیں، جس کی تکمیل کبھی کلاس روم، کبھی پارک تو کبھی ریسٹورنٹ میں ہوا کرتی. کئی بار دونوں نے ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں بھی کھائی تھی۔ لیکن کچھ دنوں سے ثانیہ کے رویے میں تبدیلی آگئی تھی جس کی وجہ آصف تھا جو ارسلان سے زیادہ وجیہہ تھا اور دولت مند بھی۔ اب بھی ثانیہ کی سہانی شامیں پارکوں میں اور شب کا اکثر حصہ محبت بھری باتوں میں گزرتا لیکن آصف کے ساتھ۔
بہت کوشش کرنے کے بعد آج ارسلان کا فون ملا تھا۔ ہیلو۔۔۔۔ثانیہ کیسی ہو؟
اچھی ہوں. دوسری جانب سے ثانیہ کی بوجھل آواز آئی.
ارسلان:میں بہت دیر سے کوشش کررہا ہوں لیکن تمہارا نمبر مستقل مصروف (busy) آرہا تھا۔
ثانیہ:میری ایک سہیلی سے بات ہورہی تھی۔
ارسلان:کیا بات ہے ثانیہ! مجھے محسوس ہورہا ہے کچھ دنوں سے تم مجھے نظر انداز کررہی ہو ۔کہیں….. ؟
ثانیہ: تم مجھ پر شک کررہے ہو ؟میں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ تمہاری سوچ اتنی گھٹیا ہوگی ۔ تم نے تو مجھے ایک پل میں دو کوڑی کا کردیا۔
ارسلان :ایسی بات نہیں ہے ثانیہ! تمہیں اچانک یہ کیا ہوگیا ہے ؟ میں تو صرف پوچھ رہا تھا اگر کوئی تکلیف ہوئی تو I'm so sorry مجھے معاف کردو پلیز…
ثانیہ اب میں ایک منٹ بھی تم سے بات نہیں کرنا چاہتی. تم نے سمجھ کیا رکھا ہے مجھے. اور ہاں……. آئندہ فون مت کرنا۔
ثانیہ فون بند کرکے کچن کی طرف جا ہی رہی تھی کہ آصف کی کال آئی اور اس نے مسکراتے ہوئے رسیو کیا۔
آصف! تم بہت جلدی کھانے سے فارغ ہوگئے؟ ثانیہ نے چہکتے ہوئے پوچھا۔
کیا کریں تمہارے بغیر تو کھانا بھی اچھا نہیں لگتا. آصف نے جواب دیا۔
تم کھانے کی بات کرتے ہو آصف! مجھے تو تمہارے بنا کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ثانیہ نے نہلے ہی دہلا مارا۔ اس کی پرانی عادت جو تھی۔ پھر عشق ومحبت کی داستان شروع ہوگئی۔
دوسری طرف ارسلان خود کو لعنت وملامت کررہا تھا اور یہ سوچ کر تڑپ رہا تھا کہ ثانیہ ضرور دوپٹے سے منھ چھپائے رو رہی ہوگی۔
���
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ