اُستاد کا مقام ، تذلیل کے عوامل اور نتائج فکر انگیز

ڈاکٹر آزاد احمد شاہ

اسلامی تعلیمات کے مطابق، استاد کا مقام والدین کے بعد سب سے بلند تصور کیا جاتا ہے۔ ایک استاد ہی ہے جو ایک بے علم انسان کو علم کی روشنی سے منور کرتا ہے اور اسے زندگی کی پیچیدہ راہوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ یہ بات طے شدہ ہے کہ استاد کا کردار انسانی معاشرت کے ہر دور میں ناقابلِ تردید رہا ہے، لیکن جدید معاشرے میں اساتذہ کی عزت و وقار میں نمایاں کمی آتی جا رہی ہے۔
اساتذہ کی بے ادبی اور تذلیل کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔ سب سے پہلے، معاشرتی رویوں میں تبدیلی اور مادی سوچ کا فروغ ایک بڑا سبب ہے۔ آج کل معاشرت میں مادی کامیابی کو ہی معیار مانا جا رہا ہے اور روحانی و اخلاقی قدریں کمزور ہو چکی ہیں۔ اساتذہ جو معاشرت کی فکری اور اخلاقی ترقی کا ذریعہ ہوتے ہیں، انہیں اب صرف ایک پیشہ ورانہ حیثیت میں دیکھا جاتا ہے۔ ان کی اہمیت صرف ان کے تدریسی فرائض تک محدود کر دی گئی ہے، جبکہ ان کی تربیتی اور روحانی اہمیت کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ، میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھی ایک بڑا کردار ہے۔ مختلف ٹی وی ڈرامے اور فلمیں اساتذہ کی منفی تصویر کشی کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان نسل اساتذہ کے لیے احترام کا جذبہ کھوتی جا رہی ہے۔ طالب علم، جو کل کا معاشرہ تشکیل دیتے ہیں، ان کے ذہنوں میں استاد کا وقار کم ہوتا جا رہا ہے، اور یہ ان کے رویوں میں ظاہر ہوتا ہے۔

جدید تعلیمی نظام میں بھی ایسی خامیاں ہیں جو استاد کی بے ادبی اور تذلیل میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو محض ملازم کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے وقار کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اساتذہ کو اکثر غیر تدریسی کاموں میں مصروف کر دیا جاتا ہے، جو ان کی اصل تدریسی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے اور ان کے وقار میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ، کئی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو طلباء اور والدین کے غیر ضروری دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کی عزت و وقار مجروح ہوتا ہے۔اساتذہ کی تنخواہوں میں کمی اور ان کے حالاتِ کار بھی ان کی بے ادبی کا ایک سبب ہیں۔ جب ایک استاد کو اپنی محنت کے مطابق مالی معاوضہ نہیں ملتا یا اسے ایک ادنیٰ ملازم کی حیثیت سے برتا جاتا ہے، تو اس کا خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے اور وہ اپنے پیشے سے دل برداشتہ ہو جاتا ہے۔
اساتذہ کی تذلیل کے نتائج دور رس اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ جب معاشرہ اپنے اساتذہ کی عزت نہیں کرتا تو طلباء بھی اپنے اساتذہ سے متاثر نہیں ہوتے اور تعلیم و تربیت کے عمل میں دلچسپی کھو بیٹھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک پوری نسل تعلیمی اور اخلاقی لحاظ سے کمزور ہو جاتی ہے۔

استاد نہ صرف ایک معلم ہوتا ہے بلکہ وہ ایک مصلح، رہنما اور معاشرتی ستون بھی ہوتا ہے۔ استاد کے بغیر معاشرہ ایک ایسی کشتی کی مانند ہے جو بغیر ملاح کے سمندر میں بھٹک رہی ہو۔ اساتذہ کی تربیت نہ صرف طلباء کے مستقبل کی تشکیل کرتی ہے بلکہ ایک پوری قوم کی ترقی و خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔آج کا معاشرہ جس تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، اس میں اخلاقی و روحانی قدروں کی کمی شدت اختیار کر چکی ہے۔ اس صورت حال میں اساتذہ کا کردار مزید اہم ہو جاتا ہے کہ وہ نئی نسل کو ان گمشدہ قدروں کی جانب واپس لے کر آئیں۔

اس مسئلے کا حل صرف معاشرتی رویوں کی تبدیلی میں مضمر ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اساتذہ کی اہمیت کو دوبارہ تسلیم کرنا ہوگا۔ تعلیمی اداروں، والدین، اور معاشرے کو مل کر اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اساتذہ کی عزت اور وقار بحال ہو۔ اساتذہ کی معاشرتی اور مالی حالت کو بہتر بنانا بھی اس مسئلے کا ایک اہم پہلو ہے۔ جب ایک استاد کو عزت و احترام کے ساتھ ساتھ مناسب معاوضہ اور سہولیات فراہم کی جائیں گی تو وہ اپنی تدریسی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے سکے گا۔والدین کا بھی اس ضمن میں اہم کردار ہے۔ انہیں اپنے بچوں کو اساتذہ کی عزت و احترام سکھانا ہوگا تاکہ وہ ان کی تعلیم و تربیت میں مثبت رویہ اختیار کریں۔ اس کے علاوہ، تعلیمی اداروں میں ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو اساتذہ کے وقار کو یقینی بنائیں اور ان پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ اساتذہ کی بے ادبی اور تذلیل کا بڑھتا ہوا رجحان ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی قدروں کے لیے ایک خطرہ ہے۔ ہمیں مل کر اساتذہ کی عزت و وقار کو بحال کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ہماری نئی نسل ایک روشن اور تعلیم یافتہ مستقبل کی طرف گامزن ہو سکے۔ ایک بہتر اور مہذب معاشرہ اسی وقت تشکیل پا سکتا ہے جب استاد کی عزت و عظمت کو دوبارہ اس کا جائز مقام ملے۔
(موصوف ایک معروف اسلامی اسکالر اور ماہر تعلیم ہے)
���������������