انسان دنیا میںکبھی بھی تنہا وقت نہیں گزارتا،وہ کئی رشتے ناطوںکے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ان میں سے کچھ رشتوں کاتعلق خون سے ہوتا ہے جبکہ بہت سے رشتے ناطوں کا تعلق روحانی ،اخلاقی اور معاشراتی طور پر قائم رہتا ہے۔انہی میں سے ایک رشتہ اْستاد کا بھی ہے۔اْستاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے۔اسلام میں ہی نہیں بلکہ باقی مذاہب میں بھی اْستاد کا رْتبہ والدین کے رْتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے،کیونکہ دنیامیں والدین کے بعد اگر کسی بچے کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی اْستادپر ہوتی ہے۔سچ تو یہ بھی ہے کہ انسان تو وہ ہے جو صاحبِ علم یا طالبِ علم ہے اوریہ تو اْستاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں جینے اور زندگی گزارنے کی تربیت ،اہمیت اور افادیت سے واقف کراتا ہے گویا اْستاد ہی کسی بھی قوم کے نونہالوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے ضامن ہیں۔ایک بچے کی پہلی کتاب اْستاد اور پہلا سیلیبس اْستاد کی سکھائی ہوئی باتیں ہوتی ہیں۔چنانچہ سماج کا اثر بھی بے شک ایک بڑا اْستاد ہوتا ہے لیکن بچپن کی جبلی بْرائیوں کے دفع کرنے میں اْستاد کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے۔ اسی بات پر مجھے فاتح عالم سکندر کا ایک واقع یاد آرہا ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنے اْستاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل میں گزر رہے تھے کہ راستے میں ایک بڑا برساتی نالہ آگیا۔ بارش کی وجہ سے نالہ میں طغیانی آئی ہوئی تھی۔اْستاد اور شاگرد کے درمیان بحث ہونے لگی کی خطرناک نالہ پہلے کون پار کرے گا۔شاگرد یعنی سکندر بضد تھا کہ پہلے وہ جائے گا۔آخر اْستاد ارسطو کو اس کی بات ماننا پڑی۔پہلے سکندر نے نالہ پار کیا پھر ارسطو نے نالہ عبور کرکے سکندر سے پوچھا : کیا تم نے پہلے نالہ پار کرکے میری بے عزتی تو نہیں کی ؟ سکندر نے جواب دیا :’’نہیںاْستاد مکرم !میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہوسکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کرسکتا۔‘‘اے معلم تو کہہ نہیں سکتا تو کیا ہے۔۔۔سنگ کو سورج بناکر بھی تو کہہ نہیں سکتا تو کیا ہے۔
ہمارے رہبر و رہنما حضرت محمد مصطفیٰؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں۔’’ایک جو تمہاری پیدائش کا سبب بنتا ہے (والد)۔دوسرا وہ جس نے اپنی بیٹی تمہاری زوجیت میں دی ہے (سْسر)اور تیسرا وہ، جس سے تم نے علم حاصل کیا ہے اور ان تینوں میں بہترین باپ تمہارا اْستاد ہے‘‘۔اْستاد کو بہترین باپ فرمانے کا مفہوم یہ ہے کہ باپ محض اس کی جسمانی زندگی کا سبب ہے اور سْسر صرف اس کی ازدواجی زندگی کا باعث ہے اور یہ دونوں حیثیتیں وقتی اور ناپائیدار ہے مگر اْستاد اس کی روح و اخلاق کا سبب ہے جو اس دنیا کے بعد بھی اس کے فائدے کا سبب ہے۔
اب جہاں تک اْستاد کے حقوق کا تعلق ہے تو پہلا حق یہ ہے کہ اْس کا احترام کیا جائے ،اْس کی ہر بات پوری توجہ سے سْنی جائے اور اْس کے بتائے ہوئے علم کو پوری لگن کے ساتھ ذہن نشین کیا جائے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس کسی طالبِ علِم کے دل میں علم کی جتنی لگن ہوگی اتنا ہی وہ صاحبِ علِم بن جاتا ہے۔اس لئے اْستاد ہی اپنے اْستاد کا احترام کرے گا اور اس کی بات دھیان سے سْنے گا۔
اْستاد کے مقام اور رْتبے کا اندازہ ہم ان کچھ زریں اقوال سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔
٭ حضور اکرم ؐنے فرمایا :’’ بے شک مجھے اْستاد بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘
٭ حضرت علی ؓ نے فرمایا:’’ اگر تم بادشاہ ہو تب بھی تم اپنے والد اور اْستاد کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاو۔‘‘
٭کسی نے سکندر اعظم سے پوچھا کہ آپ اْستاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہو ؟ اس پر سکندر نے کہا کہ’’ میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور میرا اْستاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔‘‘
٭ عباسی سلطنت کا خلیفہ ہارون رشید ایک دن جمعہ کی نماز پڑھ کر نکل رہا تھا تو اپنے دونوں بیٹوں کو مامون رشید اور امین رشید کو اپنے اْستاد کے جوتے اْٹھانے کا حکم دیا۔اگلے دن خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دربار میں یہ سوال کیا کہ آج سب سے زیادہ عزت کس کی ہے؟ سب نے کہا کہ خلیفہ کی عزت سب سے زیادہ ہے لیکن ہارون رشید نے بتایا کہ’’ سب سے زیادہ عزت اْستاد کی ہے جس کے جوتے اٹھانے میں خلیفہ کے بیٹے بھی فخر محسوس کرتے ہیں‘‘۔
٭حضرت ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ’’ اْستاد اور شاگرد کا رشتہ ایسا ہونا چاہئے کہ اگر کوئی غیر دور سے دیکھے تو اْسے لگے کہ یہ باپ اور فرزند ہیں‘‘۔
٭جب ڈاکٹر اقبال ؒ کو ’ سَر‘کا خطاب ملا تو علامہ اقبال نے کہا:’’سر میں نہیں میرے اْستاد مولوی میر حسن ہیں تو اْس وقت کے گورنر لارڈ میکا لیگن نے اقبال سے پوچھا کہ مولوی میر حسن کی کون سی تصنیف ہے؟ تو علامہؒ نے بہت خوبصور ت جملہ کہا کہ میں مولوی میر حسن کی زندہ کتاب ہوں یعنی ’’میں مولوی صاحب کی تصنیف ہوں‘‘۔
٭ مشہور یورپی مفکر آسکر وانلٹو نے کہا کہ جن قوموں میں اْستاد کو احترام کا درجہ دیا جاتا ہے وہ اقوام عالم کی رہبری کرتے ہیں۔
٭ قیصر حیا ت نے خوبصورت شعر سے اْستاد کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
خاکہ تصویر تھا میں خالی از رنگِ حیات
یوں سجایا آپ نے مجھ کو کہ قیصر کردیا
غرض یہ کہ اْستاد ہی وہ ہستی ہے جو ہمیں گمنامی کے اندھیرے سے نکال کر ایک پہچان دیتا ہے ،لیکن افسوس یہ کہ ہم دنیا کی عیش و عشرت اس قدر مگن ہوچکے ہیں کہ اْستاد کی سکھائی باتیں بھی بھول گئے ہیں۔
مدتوں تک جو پڑھایا اْستاد نے مجھے
عشق میں بھول گیا کچھ نہ رہا یاد مجھے
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اْستاد کی ہر ایک بات پر عمل کریں اور ان کی عزت و احترام کریں تاکہ ہم زندگی میں کامیاب ہوسکیں۔
(رابطہ: چیوڈارہ بیروہ بڈگام)