اُردو زبان اور ہماری ذمہ داریاں

 اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے 
  وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی
یہ زبان نے برصغیر ہندوپاک میں انسان کی شخصیت کی تعمیر ،تعلیم اور ہمہ جہت ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔اردو زبان ایک امانت ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔موجودہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اردو کی بقا اور فروغ کی سرگرمیاں انجام دیں تاکہ سماج کے سامنے اردو زبان کی اہمیت و افادیت کے وہ تمام پہلو اجاگر ہوجاہیں جنہیں ہمارا سماج ایک عرصے سے نظر انداز کرتا آرہا ہے۔اس سلسلے میں ہم چند تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں۔
۱۔اردو زبان سے متعلق سماج میں موجودہ کئی غلط فہمیاں (بالخصوص روزی روٹی کے تعلق سے)موجود ہیں۔ہمیں اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔اردو زبان میں ابتدائی تعلیم کے حصول کی بہت سخت ضرورت ہے۔
۲۔اردو زبان کی ارتقا اور بقا کے لے لازمی ہے کہ ہم اردو کا اگلا قاری تیار کریں۔بچوں کو مطالعہ کا عادی بنانے کے لئے اردو کتابیں، رسالے ،اخبارات خریدیں اور بچوں کو پڑھنے کیلئے دیں۔
۳۔انسان اپنی مادری زبان پر عبور حاصل کرے تو اس کے لئے کسی اور زبان یا علم کو حاصل کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے علاقے کی زبانوں اور انگریزی پر بھی عبور حاصل کریں۔
۴۔ہمیں اردو زبان میں ادب ِاطفال پر مزید محنت کی ضرورت ہے۔آج زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ ادب اطفال تخلیق کرنے کی بہت ریادہ ضرورت ہے۔موجودہ وقت سائنس کا ہے۔ ہم سائنس فکشن اور سائنسی موضوعات پر بہترین کتابیں تحریر کر سکتے ہیں۔بچوں کیلئے کتابیں تحریر کرتے وقت رموزواوقات ،ذخیرہ الفاظ ،املا اور ہجا کے مسائل پر بھی مستقل طور پر دھیان دیا جائے تو بچے معیاری زبان ،معیاری تلفظ ولب و لہجہ سے روشناس ہوسکتے ہیں۔
۵۔اردو کی شیرینی و اثرپذیری اور ایسے ہی دیگر عنوانات پر تقاریر، بحث و مباحثے اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے۔زبان کی کھیل زباندانی کے مقابلے اور نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے زبان پر عبور دلانے کا منصوبہ بنایا جائے، پروگرام ایسے ماحول میں منعقد کئے جائیں کہ اردو سے انسیت و محبت کا ماحول پیدا ہو۔
۶۔ہمارے درمیان ایسے بہت سارے اسکالرس موجود ہیں جو اردو کی بقا کیلئے سرگرم ہیں۔ ایسے تمام ہی اسکالرس، اساتذہ اور دیگر ماہرین فن سے درخواست ہے کہ وہ اردو زبان کی بقااور فروغ کے مختلف پہلوئوں سے متعلق عنوانات پر مقالے اور مضامین لکھیں اور شائع کروائیں جن سے اردو زبان سے متعلق تمام غلط فہمیاں دور ہوسکیں اور عوام کی ذہن سازی ہو۔ اسی طرح مراسلہ نگار اردو زبان سے متعلق موضوعات پر مراسلے تحریر کرتے ہوے اخباروں میں شائع کروائیں تاکہ ان مضامین کا مطالعہ کر کے اردو زبان سے متعلق تمام غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔
۷۔ موجودہ زمانے میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور اس کے بڑھتے ہوئے استعمال سے انکار ممکن نہیں۔عام طور پر لوگ سوشل میڈیا پر بات چیت کرنے کے لے انگریزی رسم الخط کا استعمال کرتے ہیںاور رومن تحریر کو بڑھاوا دیتے ہیں۔آپ لوگوں نے مراٹھی اور ہندی زبانوں میں تحریر کرتے دیکھا ہوگا۔ایسے ماحول میں اگر ہم سوشل میڈیا پر اردو رسم الخط استعمال کرنے کا مشورہ دیں تو کوئی معیوب بات نہیں ہوگی۔فیس بک ، واٹس ایپ،ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع کا استعمال کرنے والے احباب جانتے ہیں کہ ان کے کمپیوٹر یا موبائل پر اردو پڑھنے اور لکھنے کی سہولت موجود ہے۔
غرض کہ اردو زبان کے تحفظ میں ہمیں صرف سیاسی کوششوں پر قناعت نہیں کرنی چاہیے اور حکومتوں سے مطالبات کو کافی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ خود اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے۔خود بے عملی کا راستہ اختیار کر کے حکومت یا کسی دوسری تنظیم سے تحفظ کا مطالبہ کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص دوسروں سے اپنے گھر کی امید رکھے اور خود ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے۔ہمیں خود اس میدان میں اتر کر اس زبان کے تحفظ کے لئے محنت کرناہوگی۔
 سینکڑوں اور بھی دنیا میں زبانیں ہیں مگر
جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو