عبدالقیوم شاہ صاحب کے دل کی یہ آواز ایک مضمون کی صورت میں’’ کشمیر عظمیٰ ‘‘ کی وساطت سے سنی ۔ مضمون پڑھ کر کافی خوشی ہوئی کہ ہم میں کوئی ہے جو ان دُکھتی رَگوں پر انگلی رکھتا ہے اور تھوڑا دکھ بھی ہواکہ ہم کتنے گئے گزرے ہیں۔ کشمیری تہذیب وثقافت کے داغ داغ دامن کامرثیہ۔۔۔ا ُجاڑا چمن اور بگاڑا وطن ہے۔۔۔ مگر محترم شاہ صاحب ! آپ کو معلوم ہی ہے کہ کشمیرکے لوگ کتنے عظیم تھے، مدبر تھے اور اس وقت بھی حسا س اور سنجیدہ ہیں۔۔۔ مگر جو لوگ ا غیا ر کی ماتحتی میںزندگی گزارتے ہوں ،وہ کچھ بھی بحالت مجبوری کرگزرتے ہیں ،ان پر غیروں کی تہذیب وثقافت مسلط کی جاتی ہے جو دیر سویر اُن پرا پنے منفی اثرات ڈالتی رہتی ہے۔۔ مگر یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہم نے خود بھی اپنی تہذیب وثقافت اور زبان کا قتل عام کیا اور اس کا سرراہ جنازہ اُٹھایا۔۔ ۔ یہ تلخ حقیقت آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی۔۔۔ جب ہمارے بچے اور بچیاں گھر سے نکلتی ہیں تو ہمارے سامنے سے ہی نکلتی ہیں ۔ اور چیزوں کو چھوڑیئےان بچوں اور بچیوں کا لباس دیکھ کر کیاہم کبھی انہیں کچھ نصیحت کر نے کی زحمت گوارا کرتےہیں؟۔۔۔ اس لئے تہذیبی زوال اور ثقافتی تنزل کے ذمہ دار اغیار کے علاوہ ہم خود بھی ہیں۔ آپ کا کالم ہمارے لئے چشم کشا ہ بشرطیکہ اگر ہم سمجھدار اور بینائی والے ہوں ۔
طالب دعا