اُترپرد یش اسمبلی الیکشن | سیاسی جماعتوں کے لئے مہا بھارت

   ملک میں تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا وائرس کی تیسری لہرکے بیچ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اُ تر پردیش سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کا شیڈول 8؍ جنوری  2022کو جاری کردیا۔ ایک طرف حکومت عوام سے مطالبہ کر رہی ہے کہ اس وبائی وباء پر قابو پانے کے لئے ماسک منہ کو لگائے بغیر گھر سے باہر نہ نکلیں اور ہر حال میں سماجی فاصلہ کو بر قرار رکھیں، کورونا کے اثر سے کئی ریاستوں میں ہفتہ واری کر فیو نافذ کرنے کی نوبت آ گئی۔ تمام قسم کی مذہبی اور ثقافتی تقاریب کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ بہت ساری ریاستوں میں نائٹ کرفیو کے ذریعہ عوام کوگھومنے پھرنے سے روک دیا گیا۔ یہ سارے اقدامات لائقِ خیرمقدم ہیں ، کیوں کہ کسی جان لیوا مرض سے چھٹکارا پانے کے لئے کوئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں تو عوام کی ذ مہ داری ہے کہ وہ اپنی اور پورے ملک کی عوام کی صحت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حکومت سے ہر مر حلہ پر تعاون کرتے ہوئے قوانین کی پابندی کریں تاکہ انسانی جانوں کا اتلاف نہ ہوسکے۔ اردو کا یہ مقولہ بہت عام ہے کہ "جان ہے تو جہان ہے "لیکن جس انداز میں ملک میں پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا اعلان انتخابی کمیشن نے کر دیا ہے، اس سے عوام کے ذہنوں میں کئی قسم کے سوالات اُ بھر رہے ہیں۔ سب سے پہلا سوال یہی ہے کہ آیا ایک ایسے وقت جب کہ پوری دنیا میں اومی کرون نے پھر سے دہشت کا ماحول پیدا کر دیا ہے اور مختلف ممالک میں اس وباء کی قہر سامانی کا سلسلہ جاری ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ الیکشن کمیشن حالات کے بہتر ہونے کا اورکچھ دن انتظار کرتا۔ ملک کی عوام اس تیسری لہر کی مار سے کا فی بدحال ہے۔ اُ سے ایک طرف اپنی صحت کی فکر ہے اور دوسری طرف گز شتہ دو سال سے ملک میں کوویڈ نے جو معاشی بحران پیدا کردیا ہے اس سے عام عوام ابھی بھی اپنی دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہے۔ ان اسمبلی انتخابات کو دو، چار ماہ کے لئے ملتوی کیا جاتا تو کوئی بڑا دستوری بحران بھی پیدا ہونے کے کوئی آ ثار نہیں تھے۔ دستورِ ہند ناگہانی حالات میں اسمبلی کی معیاد کو چھ ماہ تک توسیع دینے کی اجازت دیتا ہے۔ اس دستوری سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن کمیشن اسمبلی انتخابات کو موخر کر سکتا تھا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اربابِ اقتدار کو انسانی جانوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ کورونا کی تیسری لہر سے حالات پھر سے بے قابو ہو تے جا رہے ہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ طبی سہولتوں کا فقدان جیسے دو سال پہلے دیکھا گیا اب بھی وہی صورتِ حال دیکھی جارہی ہے۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے دعوے اپنی جگہ پر لیکن متاثرہ لوگوں کی داستانیں اب بھی سننے والوں کو تڑپادینے والی ہیں۔ کارپوریٹ ہاسپٹلس ، تجارتی منڈیاں بن گئی ہیں، جہاں مرنے کے بعد بھی لاکھوں روپئے دے کر میت کو حاصل کرنے کی نوبت آ رہی ہے۔ یہ تصویر کسی ایک ریاست تک محدود نہیں ہے ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ ایسے میں الیکشن کا اعلان "کون جیتا ہے تیرے زلف کے سَر ہونے تک "کے مصداق ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعلا میہ کا سب ہی سیاسی پارٹیوں نے بڑے جوش و خروش سے خیرمقدم کیا۔ البتہ اپوزیشن پارٹیوں نے ہر بار کی طرح اس بار بھی یہ جملہ دوہرا دیا کہ الیکشن صاف اور شفّاف ہونے چاہئے۔ الیکشن کمیشن نے جب پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا اعلان کر ہی دیا تو اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ انتخابات کتنی اہمیت کے حامل ہیں ۔ آیا ان اسبملی انتخابات کے نتائج دو سال بعد ہونے والے عام انتخابات پر اثرنداز ہوں گے یا نہیں ؟                 
     جن پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کا الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے ، ان میں اُتر پردیش، پنجاب، اترا کھنڈ، منی پور اور گوا شامل ہے۔ پولنگ کی شروعات 10؍ فروری 2022سے ہوگی اور آخری مرحلے کی پولنگ 7؍ مارچ 2022کو ہوگی۔ ووٹوں کی گنتی 10؍ مارچ کو ہوگی اور اسی دن نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔ پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں سب سے اہم ریاست اُ تر پردیش ہے، اور اس وقت سارے ملک کی نظریں بلکہ ساری دنیا کے باشعور عوام کی نگائیں یوپی کے الیکشن پر ٹِکی ہوئی ہیں۔ گز شتہ پانچ سال میں یوپی میں جو دِگرگوں صورتِ حال منافر سیاست کاری کی وجہ سے پیدا ہوئی، اب اس کا اعادہ نہ ہو ،اس بات کو لے کر ملک کے امن پسند اور انصاف پسند حلقے کافی فکر مند ہیں۔ حکمرانوںنے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے سماج کو جس طریقے سےمنقسم کیا، اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ یوپی کے چیف منسٹر یوگی آد تیہ نا تھ نے اپنے پانچ سالہ دور میںریاستی عوام کے لئے کتنے فلاحی اور اچھے کام کئے ہیں عوام اُس کا پھل اُنہیں ضرور دیں گے،اگر اچھے کام نہیں کئے ہوں گے تو اُس کا خمیازہ اُنہیں اٹھانا پڑے گا۔  جبکہ عام رائے یہی ہے کہ انہوں نے اکثریتی طبقہ کو اپنا  ہمنوا بنانے اور ان کے ووٹ حاصل کرنےکے لئے اقلیتوں اور بالخصوص یوپی کے مسلمانوں کے ساتھ مخلصانہ رویہ نہیں دکھایااور اُن کے ساتھ ہر معاملے میںغیر ذمہ دارانہ رول نبھایا،جبکہ اور مسولینی جیسا طرزِ عمل اپنایا۔یو پی کے بعض حلقوں کا کہنا ہےکہ چیف منسٹر نے جمہوریت کے لبادے میں جمہور مخالفت کے وہ رنگ ڈھنگ اختیار کئے کہ خود ان کی پارٹی کے لوگ اور منسٹر اُن کے سامنے لب کُشائی نہیں کر سکتے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ یوپی اسمبلی الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے وزراء اور ارکانِ اسمبلی بی جے پی سے کھلے عام بغاوت کر تے ہوئے دوسری پارٹیوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ سب سے پہلے یوپی کے وزیر سوامی پرساد موریہ نے بی جے پی سے استعفیٰ دیتے ہوئے سماجودای پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ان سے وفاداری کرتے ہوئے بی جے پی کے چار ارکانِ اسمبلی نے بھی پارٹی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔  اب تک تین وزراء اور کئی ارکان اسمبلی بی جے پی سے نکل چکے ہیں۔ بی جے پی سے اعلانِ برات کر نے والے ایم ایل ایز اور پارٹی قائدین کی تعداد میں کا فی اضافہ ہو سکتا ہے۔ پرساد موریہ نے یوگی جی پر الزام لگایا کہ اُن کی حکومت میں ان کی پانچ سالوں تک کی گئی شکایتوں کی کوئی سماعت نہیں ہوئی اور نہ بی جے پی حکومت نے عوام کی ضرورتوں کا کوئی خیال رکھا۔ مہنگائی آسمان کو چھوتی چلی گئی لیکن ریاستی حکومت پسماندہ طبقات کے تئیں اس حکومت کا رویہ انتہائی معاندانہ رہا۔ یہ باتیں صرف پرساد موریہ کی زبانی سننے کو نہیں مل رہی ہیں بلکہ یوپی کے ہر عام آدمی کا یہی احساس ہے۔ آنے والے دنوں میں یوپی میں سرکارکو اور سیاسی جھٹکے لگنے کا اندیشہ ہے۔ ۔مستعفی ہونے والے وزرائ کا کہنا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے پانچ سال تک سب کو خاموش کرکے اپنے مفادات کی تکمیل کرلی لیکن اب ان کی اُ لٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ اپنی زمین کھسکتی ہوئی دیکھ کر یوگی آ دتیہ نا تھ اپناوہی پُرانارویتی کارڈ کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یوگی جی نے دعویٰ کیا کہ یوپی کے انتخابات دراصل 80فیصد بمقا بلہ 20فیصد ہیں۔ ان کا یہ اشارہ صاف طور پر اسّی فیصد ہندوؤں اور بیس فیصد مسلمانوں کی طرف ہے۔عوامی حلقوں کا کہنا ہےکہ وہ اپنی ڈوبتی ہوئی نیّا کو بچانے کے لئے فرقہ واریت کے زہر کو پھر سے گھول کر دوبارہ اقتدارحاصل کرنے کے درپے ہیں۔ جیسے جیسے الیکشن قریب آ تا جائے گا، قائدین زہراگلتے جا ئیں گے اور انتخابی فضاء کو آلودہ کر نے کی کوشش کریں گے۔تاکہ عوام کے اصل مسائل نظرانداز کر دئے جائیں،جبکہ حساس موضوعات کو چھیڑ کر اپنا اُ لّو سیدھا کرنے کی پوری کوشش کی جا ئے گی۔ بقول اُن کےاپنی ساکھ کو بچائے رکھنے کے لئے یو پی سرکار کے پاس اب کچھ بچا نہیں ہے، اس لئے مذہبی منافرت کا کھیل ہی کھیلا جائے گا اورسیدھے سادھے اکثریتی لوگوں کو باور کرایا جائے گا کہ ہندوراشٹریہ بن جانے سے ہی سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔  
     اتر پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ جس پارٹی کو یوپی میں حکومت بنانے کا موقعہ ملتا ہے، وہ پارٹی مرکز میں بھی عام طور پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ اس لئے یوپی اسمبلی کے انتخابی نتائج آنے والے لوک سبھا انتخابات پر اپنا اثر برابر ڈالیں گے۔ بی جے پی مرکز میں تیسری مرتبہ بر سرِ اقتدار آنے کے لئے اترپردیش کے مجوزہ الیکشن میں کا میابی کے لئے کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہ دے گی۔ ریاست کی ترقی اور عوام کو درپیش مسائل سے پہلو تہی کر تے ہوئے انتخابی مہم میں اشتعال انگیز تقاریر بھی کی جائیں گی اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا ہر حربہ اختیار کیا جائے گا۔ بظاہرسیاسی پارٹیوں کے پاس اس وقت بھی کوئی مثبت پروگرام دکھائی نہیںدے رہا ہے۔ وہ اپنے روایتی ایجنڈے کی بنیاد پر ہی یہ جنگ جیتنے کی پوری کوشش کریں گے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں وزیراعظم نریندرمودی سے لے کر یوگی آدتیہ ناتھ نے شمشان گھاٹ۔ قبرستان جیسے جملوں کے ذریعہ رائے دہندوں کو اپنی طرف گمراہ کرنے کی سیاست چلائی تھی ، اب بھی کئی قائدین کے تیور بتارہے ہیں کہ وہ متنازعہ موضوعات کو گرما کر سماج میں تفریق پیدا کرکے اپنے  عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی حتی الامکان کوشش کریں گے۔ الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی بی جے پی کے خیموں میں بھی سیاسی ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بی جے پی کی اس دگرگوں صورتِ حال سے اتر پردیش میں کوئی سیاسی کرشمہ ہونے کے آ ثار پیدا ہوئے ہیں ؟ بی جے پی کے قائدین اپنی پارٹی کو سب سے منفرد ایک نظریاتی پارٹی مانتے ہیں لیکن یو پی میںحالیہ سر پھٹول سے ظاہر ہوگیا کہ ان کے لئے بھی اقتدار سب کچھ ہے۔ نظریات یا اصول محض ایک ڈھکوسلہ ہیں۔  استعفی ٰ دینے والے عہدیداروں کے مطابق اس بات کے قوی امکانات پائے جارہے ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو سیاسی بن باس میں جانا پڑے گا۔ جس نوعیت سے ڈرامائی صورتِ حال بنتی جا رہی ہے اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ خود یو پی سرکار کے قائدین، بی جے پی کو شکست و ریخت سے دوچار کردیں گے۔ پرساد موریہ کا کابینہ اور پارٹی سے استعفیٰ اور ان کے ساتھ دیگر ارکان اسمبلی اور قدآور پارٹی قائدین کے استعفے پارٹی میں ایک ہیجان پیداکردیں گے۔ یوگی آدتیہ ناتھ یا پوری بی جے پی قیادت اس بڑھتے ہوئے سیاسی طوفان پر قابو پاسکے گی؟یہ آنے والا وقت بتا دے گا تاہم بی جے پی کے ان بگڑ تے ہوئے حالات میں اترپردیش کی سیکولر پارٹیاں نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے اپنے اندر اتحاد پیدا کرنے میں کا میاب ہوتی ہیں اور مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں تو یوپی میں موجودہ حالات کے تناظر میں ایک نئی حکومت کا قیام نا ممکن نہیں ہے۔ یوپی اسمبلی الیکشن میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی "کرو یا مرو " جیسی صورت حال پیدا کردیاہے۔گویا ہر سیاسی پارٹی کے لئے یو پی کے الیکشن مہابھارت بن گئی ہے۔ ریاست میں بھانت بھانت کی سیکولر پارٹیاں ہیں، ان کے درمیان انتشار نے ہی انہیں ریاست میں اقتدار سے محروم کردیا ہے۔ یوپی میں ہونے والے اسمبلی الیکشن اب سیکولر پارٹیوں کے لئے ایک موقع فراہم کر تے ہیں کہ وہ یوپی سے منافرت کی سیاست کو ختم کرنے کے لئے متحد ہوجائیں۔ سماجوادی پارٹی، کانگریس، بہوجن سماج وادی ، دونوں کیمونسٹ پارٹیوں کے علاوہ یوپی کی دیگر چھوٹی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر آ تی ہیں اور آپس میں نہیں ٹکراتی ہیں تو بی جے پی کو زبردست مشکلات میں ڈال سکتی ہیں۔ لیکن یہ اس ملک کا المیہ ہے کہ منافرطاقتیں نفرت کو پھیلانے اور سماج کو تقسیم کرنے کے لئے متحد ہوجاتی ہیں ۔ اس کے برخلاف سیکولر پارٹیاں اعلیٰ اصولوں اور جمہوری قدروں کو رکھتے ہوئے بھی اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرتیں، جس سے ملک میں فرقہ پرستی بڑھتی جا رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں ہونے والے منافرت کے واقعات سیکولر پارٹیوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ ان انتخابات میں اقل ترین مشترکہ ایجنڈے کو بنیاد بناکر منافر طاقتوں کوشکست دیں تا کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی،یکسانیت ،بھائی چارہاور اطمینان و سکون کا ماحول باقی رہ سکے۔
  (رابطہ۔9885210770)