اس میں تو اب کوئی شبہ نہیں ہے کہ کسی بھی حکومت یا پارٹی کا یک نکاتی نصب العین رہ گیا ہے کہ وہ کام کیا جائے جس سے ووٹ مل سکیں کہ وہ جوں توں اقتدار میں رہ سکے یا اسے حاصل کر سکے چاہے اس کیلئے کتنی ہی حدیں کیوں نہ پھلانگنی پڑیں۔ابھی حا ل ہی میں مودی جی نے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے خاتمے سے ایک دن پہلے ایک ایسا بل پیش کردیا جس کی رُو سے سرکاری نوکریوں اور سرکاری تعلیم گاہوں میں اعلیٰ ذات کے لوگوں کو۱۰؍فیصدریزرویشن ملے گا۔ میڈیا نے اسے مودی کا ایک اور’ ’ماسٹر اسٹروک‘‘ کہا ۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کرکٹ کی زبان میں اسے چھکا گردانایعنی سب لوگ جیسے بے تاب تھے کہ مودی جی کوئی ایسا چمتکار انجام دیں جس سے ان کی جان میں جان آئے۔جب دیکھا کہ تین طلاق بِل راجیہ سبھا میں یکسر دم توڑ دے گا کیونکہ لوک سبھا میں بھی جس تعداد سے یہ بل پاس ہوا تھا وہ بھی کوئی حوصلہ بخش امر نہیں تھاکیونکہ این ڈی اے کے کئی اتحادی بھی آنکھ دکھا گئے۔اس کے بعد ایک اور بل’ ’شہریت ترمیمی بِل ۲۰۱۵‘‘ کا بھی معاملہ تھا۔لوک سبھا میں اسے بھی اگرچہ پاس ہوجانا تھالیکن راجیہ سبھا میں منظور اس کا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن سا تھا کیونکہ اس بل کو لوک سبھا میں پیش کرنے کے ساتھ ہی شمال مشرقی ریاستوں میں ایک ہڑبونگ مچ گئی اوربھاجپا کے اتحادی اس کا ساتھ چھوڑنے لگے۔سب سے پہلے آسام گن پریشد نے اس سے ناطہ توڑا ، اس نے این ڈی اے سے اپنی علاحدگی کا باضابطہ اعلان کر دیا۔اگرچہ آسام میں بی جے پی حکومت کو اس سے فوری کوئی خطرہ نہ ہوا کیونکہ یہ خود اکثریت میں ہے لیکن اس کے بعد پی اے سنگما کے بیٹے اور میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونارڈ سنگما کی باری آئی تو انہوں نے دھمکی دے ڈالی کہ وہ این ڈی اے سے الگ ہونے کیلئے تیار ہیں کیونکہ وہ شہریت بل کو نہیں مانتے ہیں۔اسی طرح منی پور اور ناگا لینڈ میں بھی بی جے پی کے سر پر مشکلات منڈلا رہی ہیں ،وہاں بھی این ڈی اے کی نام نہاد حکومت جا سکتی ہے۔امیت شاہ نے شمال مشرقی ریاستوں کے کل ۲۵؍لوک سبھا سیٹوں پر جو نظریں گڑھی تھیں اور اپنی دانست جوڑ توڑ سے سمجھ رہے تھے کہ ان میں سے ۲۰؍سیٹیں بھاجپا جیت جائے گی اور اس طرح ایس پی،بی ایس پی وغیرہ کے اتحاد سے جو نقصانات یوپی میں ہوں گے، اس کی بھرپائی ہو جائے گی،اب ایسا نہیں ہو سکے گا اور جیت کی یہ تعداد اُلٹی بھی ہو سکتی ہے۔اس لئے ان دونوں بلوں کے ساتھ ایسا ہوا تو مودی حکومت نے ان دونوں کو پارلیمنٹ کے سیشن کے آخری دن راجیہ سبھا میں پیش کرنے کی جرا ٔ ت نہ کی۔اب تو صرف ایک عارضی بجٹ کا سیشن ہوگا اور اس میں صرف بجٹ کے تعلق سے باتیں ہوں گی ، دوسرے لفظوں میں یہ دونوں بل اگلی حکومت کیلئے دردِ سر ثابت ہوں گے۔ بہر حال ’ریزرویشن بل‘ کو پاس کروانے کیلئے راجیہ سبھا کے سیشن میں ایک دن کی توسیع کی گئی ۔ چونکہ اس بل کو پاس ہونا تھا ،اس لئے راجیہ سبھا میں بھی پاس ہو گیا لیکن آگے کتنی قانونی اڑچنیں ہیں،ایسا نہیں کہ اس کا اندازہ مودی جی کو نہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اڑچنیں پیداکرکے وہ اس ملک کو چلائیںاور عوام کو الجھنوں میں پھانسے رکھیں۔ ساری پارٹیوں نے بیک زبان اس بل کی حمایت کی اور یہ ماسٹر اسٹروک یا چھکا دیوانے کی بڑ نظر آنے لگا۔زعفرانی میڈیا نے بڑا شور و غوغا کیا کہ اب اونچی ذات والوں کے تمام تر ووٹ بی جے پی کی جھولی میں جائیں گے اور اسے ایک بار پھر حکومت بنانے سے کانگریس جیسی کمزور قیادت والی پارٹی روک نہیں سکے گی۔۱۰؍فیصد ریزرویشن مودی جی اُن افراد کو دے رہے ہیں جن کی آمدنی سالانہ ۸؍لاکھ روپے تک ہو یا وہ ۵؍ایکڑاراضی کے مالک ہوںیا وہ ہزار مربع فٹ کے اپنے فلیٹ میں رہتے ہوں یا ۱۰۰؍مربع میٹر زمین پر بنا ہوا مکان اس کی ملکیت میں ہو۔ان شرائط پرملک کی ۹۰؍فیصدی آبادی پوری اترتی ہے یعنی مودی جی کی نظر میں یہ سب معاشی طور پر’’ غریب‘‘ ہوئے۔یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی گنجے کو تحفے میں کنگھی دی جائے یا کسی اندھے کو آئینہ۔اس کے علاوہ ایک اوربات یہ ہے کہ نوکریاں ہیں کہاں کہ دینے کی بات کی جارہی ہے؟جو نوکریاں تھیں بھی،وہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ختم ہو گئی ہیں۔اس لئے مودی جی ۱۵؍لاکھ روپے ہر شہری کے کھاتے میں جمع کر نے جیسے جھوٹے وعدے کی طرح پھر ایک نیا وعدہ کر رہے ہیں۔مطلب جو چیز ہے نہیں اور ان سے ہونے والی بھی نہیں ، اسی کا وعدہ کر رہے ہیں۔یہ ان کا پرانا وتیرہ ہے۔ لوگ ان کی یہ الیکشن سٹنٹ خوب سمجھ رہے ہیں!
بات در اصل یہ ہے کہ تین ہندی ریاستوں میں کانگریس کی جیت نے بی جے پی کے ہوش اُڑا دئے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ جیت اعلیٰ ذات کے کانگریس کی طرف جانے کا شاخسانہ ہے۔بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندرونی سروے کے مطابق یوپی میں بھی اعلیٰ ذات کا ووٹ کانگریس کی طرف کھسکتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔کانگریس کے بھی اپنے سروے ہیں اور دل ہی دل اس صورت حال سے حدسے زیادہ خوش ہے جبھی تو اس نے ایس پی اور بی ایس پی والے اتحاد میں شامل ہونے کی پہل نہ کی۔دوسری وجہ یہ تھی کہ دونوں ہی کانگریس کو صرف ۲؍ سیٹیں دے رہے تھے۔کانگریس اگر مول بھاؤ کرتی بھی تو اسے زیادہ سے زیادہ ۵؍ سیٹیں دے دیتے جب کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ کانگریس کو کم از کم ۲۰؍ سیٹیں دی جاتیں تو تینوں پارٹیوں کیلئے بہتر ہوتا۔اگر ۲۰۱۴ء سے پہلے کے ۲۰۰۹ء اور ۲۰۰۴ ء کے نتائج دیکھے جائیں تو کانگریس کو جیت میں۲۰؍ سے زیادہ سیٹیں آئی تھیں اور سارا کریڈت راہل کے سر گیا تھا کیونکہ وہ اس وقت جنرل سیکریٹری اور یوپی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔اسی لئے تو ایک پریس کانفرنس میں حال ہی میں راہل گاندھی نے کہا ہے کہ’ ’یوپی سے چونکانے والے نتائج بر آمد ہوں گے‘‘۔
یوپی میںاعلیٰ ذات کے ووٹوں کی منتقلی جو کہ آبادی کا تقریباً ۲۸؍ فیصد ہے اور مسلم ووٹوں کا تناسب جو تقریباً۲۰؍فیصد ہے ،ہمیں بہت کچھ سمجھا دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ دلت ،کسان اور غریبوں کی حمایت الگ سے ہے۔اس لئے کانگریس کا انتخابی میدان میں اکیلے اُترنا جائز لگتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اِن تینوں پارٹیوں میں کچھ آپسی سمجھوتے کا امکان بھی پیدا ہو جائے جو مضبوط اور کمزور امیدوار کی شکل میں نمودار ہوتو بہتر ہے۔ہندوستان میں ووٹنگ کا یہ پیٹرن رہا ہے کہ ووٹنگ کے دن ایک خاص قسم کی ہوا چلتی ہے کہ کس پارٹی کو ووٹ کیا جائے۔بہت حد تک ممکن ہے کہ کانگریس اپنے حق میں ہوا چلانے میں کامیا ب ہو جائے کیونکہ راہل گاندھی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کانگریس مری نہیں ہے ۔اس کے پرانے ووٹر اس کے قریب آرہے ہیں کیونکہ وہ بی جے پی سے ناراض ہیں اور وہ چین کی سانس لینا چاہتے ہیں۔اعلیٰ ذات والوں کا ووٹ نہ تو ایس پی اور نہ ہی بی ایس پی کو ملے گا۔ملے گا بھی تو بی جے پی کو یا کانگریس کو۔اسی لئے اِس بل کی حمایت میں سب سے پہلے کانگریس آگئی اور اس نے بی جے پی کے نام نہاد گیم پلان کو سبوتاژ کر دیا۔حالانکہ اسے بھی معلوم ہے کہ عدالت عظمیٰ میں ،یہ قانون اگر بن گیا ،تو دم توڑ دے گا لیکن کانگریس اب بی جے پی کی زبان ہی میں اسے جواب دینا سیکھ گئی ہے بلکہ سیکھ لینے پر مجبور ہو گئی ہے ۔ اس لئے اب مودی اور امیت شاہ کوئی بھی حکمت عملی کیوں نہ اپنائیں،کانگریس کا جواب حاضر ہے۔۲۰۱۳ء کا دور الگ تھا۔چاروں اور کانگریس مخالف ہو اچل رہی تھی جس میں میڈیا نے بھی ایک خاص رول نبھایا تھا۔آج لگتا ہے کہ وہ تاریخ پھر دوہرائی جا رہی ہے لیکن میڈیا کی حمایت کے بغیر۔جس مایوسی کا مظاہرہ کانگریس ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۴ء میں کر رہی تھی اور اُلٹے سیدھے فیصلے کر رہی تھی، ٹھیک اسی طرح بی جے پی آج ۲۰۱۸ء میں کر رہی ہے۔ان فیصلوں میں ایک فیصلہ سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما کو سی بی آئی سے ہٹاکر فائر ڈپارٹمنٹ کاڈی جی بنانا بھی ہے جو انہوں نے ٹھکرا دیا اور مستعفی ہونا ضروری جانا ۔بی جے پی کی جو حکومت کانگریس کے کرپشن کو موضوع بنا کر معرضِ وجود میں آئی تھی،وہی ورما کو ہٹا کر کرپشن کو فروغ دے رہی ہے۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ ۲۰۱۹ ء کے عام چناؤ میںکرپشن ہی سب سے اہم موضوع رہے گااور جو نتیجہ اُس وقت یعنی ۲۰۱۴ء میں نکل کے آیا تھا وہ آج کیوں مختلف ہوگاکیونکہ رافیل والے کرپشن سے ورما کی جبری چھٹی اور پھر گھٹیا منتقلی جڑا ہوا ہے۔بی جے پی اپنی دانست میں اسٹروک پر اسٹروک کھیلے جارہی ہے لیکن اسے سمجھنا چاہئے کہ وہ سب ہوا ئی قلعے بنا رہی ہے جس کا نتیجہ اس کیلئے موافق قطعی نہیں ۔عوام اب مزید گھٹن برداشت نہیں کر سکتے اور تبدیلی چاہتے ہیں ۔ اسی کو تو حکومت مخالف رجحان یعنی اینٹی اِن کم بنسی کہتے ہیں۔اب دیکھتے ہیں کہ ’مِینا‘ کس کے ہاتھ لگتا ہے؟
( نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں رابطہ9833999883)