پانچویں صدی ہجری کا زمانہ اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ وہ زمانہ تھاجس میں مسلمانوں کے انتہائی عروج ،خوشحالی اور کرئہ ارض کی کوئی قوم مسلمانوں کی ہمسر نہ تھی۔بغداد عالم اسلام کا مرکز اعصاب اور علوم فنون کے اعتبار سے دنیا کے لئے پر کشش حیثیت اختیار کر چکا تھا۔جہاں مسلمان قوم ان بلندیوں کوچھو رہی تھی وہاں بیرونی نظریات وخیالات کی یلغار اس کے یقین واعتمادکی دیواروں کو کھوکھلی کر رہی تھی اورضرروت تھی کہ قدرت اپنی فیاضی سے کوئی ایسی شخصیت پیدا کرے جو اپنے قدوقامت میں صدیوں پر بھاری ہو اور جو اپنے ایمانی جذبے اور غیر معمولی صلاحیت سے اس دھارے کا رخ بد ل ڈالے۔اللہ تعالیٰ کی فضل کرم سے امام شریعت،سیداوّلیا ،قطبِ ربانی،محبوب سبحانی ،غوث صمدانی حضرت پیران پیرشیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ یکم رمضان المبارک بروز جمعہ کے دن 470ھ بمطابق 1075ء کو طبرستان کے قصبے جیلان میں تولد ہوئے ۔ حضرت غوث اعظم ؒ دین اسلام کے چمن سے ایسا عطرگلاب کھلا جس نے اپنے خوشبو ئے سے روخانیت اور طریقت سے سارے عالم کو مہکادیا ہے، اور یہ عطرگلاب حضرت سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوست ؒ بن عبداللہ اور حضرت فاطمہ بنت عبداللہ الصو معی کے چمن میں کھلا اور جس کی خوشبو ئے آج تک جاری ہے۔ مگر شومئی قسمت آج جب ہم کسی ولی کامل کا بھی تذکرہ کرتے ہیں تو ہمار ا اجتمامی مزاج اس طرح بن چکا کہ ہم صرف ان حضرت کی کرامات کوہی بیان کرتے ہے ،اور انہیں کرامات کو دیکھ کر ہی ہم اس ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے لگتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ صرف ولی کامل کی کرامات کو محدود نظر نہ رکھیں بلکہ اْن کی حیات زندگی کے تمام پہلوئوں کا بھی مطالعہ کریں کہ اْن کا علمی، فکری، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے ضمن میں کیا کردار رہا ہے ۔ حالانکہ حیات مبارک ان کی زندگی کا صرف ایک گوشہ ہے ،لیکن اسے اتنی کثرت سے بیاں کیا جاتا ہے کہ ان کی شخصیت اس کے مقابلے میں دب جاتی ہیں۔ اولیا ء اللہ انسانیت کے محسن ہوتے ہیں۔ ہمیں ان محسنوں کو بھلانا نہیں بلکہ بہتر انداز میں یاد رکھناچائے تاکہ آنے والوں کو ترغیب ہو،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دوسروں کو اپنے علم، اپنے عمل، اپنے مال اور اپنی جان سے فائدہ پہنچایا یہی انسانیت کے محسن ہیں ان کو بھلادینا احسان فراموشی ہے، ان کا ذکر خیر رہتی دنیا تک قائم ودائمہ رہے۔ ایسے ہی الوعزم لوگوںکے کارناموں کے ذکر سے تاریخ دنیا سے پرُ ہیں۔ جن سے بے شمار نصیحتیں حاصل کی جا سکتی ہیں اور کی جانی چاہئیں۔
حضرت قطب ربانیؒکی تعلیمات نہایت ہی سبق آموز اور ایمان و عمل کے لئے کیمیا اثر ہیں۔الفتح الربانی میں لکھتے ہیں۔ کہ خطبات اور مواعظ میں کثرت سے اتباعِ سنت کی تلقین موجود ہے آپؒ لوگوں کو اس طرف بہت زیادہ متوجہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص رسول اللہﷺ کی پیروی نہیں کرتا ، ایک ہاتھ میں آپ کی شریعت اور دوسرے ہاتھ میں قرآن پاک نہیں تھامتا اس کی رسائی اللہ تعالی کی بارگاہ تک نہیں ہوسکتی۔وہ تباہ وبرباد ہوجائے گا،گمراہی اور ذلالت اس کی مقدر ہوگی۔یہ دونوں بارگاہِ الہی تک تیرے راہنما ہیں۔قرآن پاک تمہیں دربارِ خدا تک اور سنت بارگاہِ مصطفی تک پہنچائے گی۔تم اپنی نسبت اپنے نبیﷺ کے ساتھ صحیح کرلو،جو صحیح معنوں میں آپ کا پیروکار ہوا اس کی نسبت صحیح ہے ،اتباع کے بغیر تمہارا یہ کہہ دینا مفید نہیں کہ میں حضورکی امت میں سے ہوں ،جب تم اقوال و افعال میں رسول اللہﷺ کی اتباع کروگے تو آخرت میں آپ کی صحبت میں ہوگے۔
سید اولیا سیدنا غوث پاک ؒؒ کے نام پر منعقد ہونے والی تقریب ہے جس میںسیداولیاؒ کے حوالہ سے اللہ و رسول ﷺ اور ولایت اولیاء کا ذکر سے لوگ کو آگاہ کیا جاتا ہے، اس سے ایک طرف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی محبت سینوں میں پیدا ہوتی ہے،اور دوسری طرف اولیاء اللہ سے بھی محبت پیدا ہوتا ہے اللہ والوں کی صحبت میسر آتی ہے روحانیت، فیض اور ذہنی آسودگی ملتی ہے اللہتعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت کی ترغیب ملتی ہے ا للہ والوں کی اتباع و اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے نیکی کی ترویج اور برائی کے مٹانے میں مدد ملتی ہے۔حضرت علمدار کشمیر شیخ العالمؒ فرماتے ہیں۔
ترجمہ ۔’’ نیک لوگوں کی صحبت اختیارکر ے ، اور اُن سے محبت رکھ لے۔یہ وہی لوگ ہیں جو ہر وقت قبلہ روہوتے ہیں ،یعنی ہرقدم خدائے کعبہ کے حکم کے تحت اُٹھاتے ہیں ۔ نیک لوگوں کی صحبت دِل کو نورانی اور بُروں کی صحبت دِل کو سیاہ بناتی ہے۔‘‘کہنے کو یہ ایک شخص کی تقریب ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ اللہ و رسول ﷺ کی بزم ہوتی ہے جہاں ا للہ و رسول ﷺ کا ذکر ہوتا ہے ۔ زبانوں اور دلوں سے دعائیں نکلتی ہے ان دعاؤں کو سننے والا ا للہ تعالیٰ ہے اس کی بارگاہ سے ہمیں یقین ہے کہ یہ پر خلوص دعائیں قبول ہونگی مشکلات حل ہونگی، پریشاں دلوں کو سکون اور زخمی دلوں کو مرہم ملیں گے۔ شرکا، محافل کو اطمینان قلب اور عالم اسلام کو ان دعائوں کا سننے والا سکون قلوب و اذہان عطا فرمائے گا۔
حضرت قطبِ ربانی نیؒفرماتے ہیں کہ :ہرمومن کے لئے تمام احوال میں تین صفات لازمی ہیں۔(۱) ’’اوامر‘‘یعنی احکامِ خداوندی کی تعمیل کرے۔(۲) ’’نواہی ‘‘ یعنی محرمات وممنوعات سے بچے۔(۳) مشیتِ الہی اور تقدیر پر راضی رہے۔پس مومن کی ادنی حالت یہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت ان تین چیزوں سے غافل نہ ہواور اس کا دل ان کے ارادہ و نیت کو لازمی قراردے ،وہ نفس کو ہمیشہ ان کی تلقین کرے اورتمام احوال میں اپنے اعضائے جسم کو ان کا پابند بنائے۔( فتوح الغیب)
اولیاء اللہ اس دین کے شعائر ہیں ان سے منسوب ہر چیز ا اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہے یہ حضرات اللہ تعالیٰ کے دین کے خادم اور مخلوق خدا کے خیر خواہ ہوتے ہیں ان کی صحبت سے مردہ دلوں کو حیات جاوید ملتی ہے ان کے پاس زخمی دلوں کو مرہم، پریشان حالوں کو سکون ملتا ہے یہ خالق و خلق دونوں کی نظر میں محبوب ہوتے ہیں ۔
حضرت پیران پیر دستگیرؒ غنیتہ الطالبین لکھتے ہیں۔کہ’’لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ پڑھ لینا کافی ہے، یہ تیرے لئے اسی وقت مفید ہوگا جب تو اس کے ساتھ کچھ اور امور (اعمالِ صالحہ) ملائے گا۔ ایمان اقرار اور عمل کا نام ہے۔ جب تو گناہوں ،لغزشوں میں مبتلا اور احکام الہٰیہ کی مخالفت کا مرتکب ہوگا ان پر اصرار کرے گا ، نماز، روزہ، صدقہ اور افعال خیر ترک کرے گا تو یہ دو شہادتیں تجھے کیا فائدہ دیں گی۔ جب تو نے لاالہ الاللہ کہا تو یہ ایک دعویٰ ہے، تجھے کہاجائے گا کہ اس دعوے پردلیل کیاہے ؟اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان کا ادا کرنا، جن سے منع کیا ہے ان سے باز رہنا،آفتوں پر صبر کرنا اور تقدیرِ الٰہی کو تسلیم کرنا اس دعویٰ کی دلیل ہے۔جب تونے یہ عمل کئے تو اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کے بغیر مقبول نہ ہوں گے۔ قول بغیر عمل کے اور عمل بغیر اخلاص اور اتباع سنت کے مقبول نہیں۔‘‘
گیارہ ربیع الثانی کا عمل حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے یوم وصال 11 کی نسبت سے منایا جاتا ہے،اورسالانہ عرس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اللہ والوں کا ذکر خیر ہو، اللہ تعالیٰ کا ذکر، رسول ا للہﷺ پر درود و سلام اور سرکار کی سیرت طیبہ اور قرآن و سنت کے جس چشمہ صافی سے ان بزرگوں نے اپنے آ پ کو اور پھر ایک جہان کو سیراب کیا ہے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے اور ان مجالسیوں کا مقصد یہی ہوتا ہیں کہ لوگوں تک اپنے بزرگوں کے مقام و مرتبہ، علمیت، جد و جہد، تعلیم و تزکیہ، خدمت خلق، اعلیٰ اخلاق و کردار کے کارنامے پہنچائے جائیں جس سے ایک طرف ان محسنین کا ذکر خیر ہوتا رہے۔ پروردگار سے دعا ئیں مانگی جائیں کہ مسلمانوں پر پڑنے والی مصیبتوں کا خاتمہ ہو ان کی عزت و آزادی بحال ہو، ان کی کمزوریاں اور محکومیاں ختم ہوں، باہمی اختلافات و تنازات نابود ہوں،ایصال ثواب کی مختلف طریقے اور نام ہیں ہر دور میں تھے ہر دور میں رہیں گے ان میں درپیش آنے والی خرابیوں کا ازالہ کریں ہر عمل میں خلوص پیدا کریں جس سے اللہ تعالیٰ او رسول اللہ کی رضا اور مخلوق خدا کی بہتری پیش نظر رکھیں نیکی کی راہیں کثرت سے کھلی ہیں لیکن خلوص اور جذبہ و عمل کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوںکہ ہم سب مسلمانوں کو حق کہنے ، حق بولنے، حق لکھنے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!
رابطہ۔ اوم پورہ بڈگام، 9419500008