علامہ مشرقؒ نے عظمت ِ انسان سے متعلق تجسس آمیز سوال کے انداز میںاللہ بزرگ و برتر سے عرض کیا ؎
یہی آدم ہے سلطان بحروبر کا
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بین نے خدا بین نے جہاں بین
یہی شاہکار ہے تیرے ہُنر کا
واقعی عالم ِ آب و گلِ میں امتحان نہ صرف اشرف المخلوقات ہے بلکہ عزت و عظمت ،فضیلت و جلالت کی معراج کا حامل بھی ۔ربانی ارشاد ’’(یہ تو ہماری عنایت ہے کہ)ہم نے بنی آدم کو فضیلت عطا کی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی ‘‘(بنی اسرائیل :۷۰)خلقت آدم سے متعلق ربانی ارشاد ہے ۔’’اے ابلیس ! تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے ؟ (سورہ ص : ۷۵)۔‘‘ڈاکٹر اسراؔر اس ربانی ارشاد کی تشریح میں فرماتے ہیں : ’’یہ آیت عظمت ِ انسان کی عظیم دلیل ہے ۔خَلَقتُ بِیَدی(دونوں ہاتھوں سے بنایا )سے کیا مراد ہے ؟ دونوں ہاتھوں سے مراد دو عالم ہیں ،ایک عالم خلق اور دوسرا عالم امر۔جملہ مخلوقات یا عالم خلق سے متعلق ہیں یا عالم امر سے ،البتہ انسان کے وجود میںیہ دونوں عالم آکر جمع ہوگئے ہیں ،اس کے وجود حیوانی کا تعلق ’’عالم خلق ‘‘سے ہے ،اس اعتبار سے یہ مادی اور زمینی مخلوق ہے ۔اسی لئے تو فرمایا ’’اس زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ،اسی میں تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے دوبارہ نکالیں گے ۔(طٰہ:۵۵)اور اس کے وجود ِ روحانی کاتعلق ’’عالم امر‘‘سے ہے ۔ فرمایا: ’’کہہ دیجئے یہ روح میرے رب کا ’’امر‘‘ ہے(بنی اسرائیل:۸۵)محولہ بالا آیات الٰہی کی روشنی میںیہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ انسان خلاصۂ کائنات ہے ، انسان ہُنر ِ الٰہی کا شاہکار ہے ،انسان مسجود ملائکہ ہے ،انسان خلیفتہ الارض ہے ۔۔۔آیات الٰہی کی روشنی میں جب انسان کو اپنی معرفت کی آگہی کی یافت حاصل ہوجائے تو اسے اپنے اور اس اتھاہ و بسیط کائنات کے خالق (Creator)کی معرفت اور پہچان معاً حاصل ہوگی وگرنہ خالق کی معرفت انسان کے لئے ایک چیستیاں سے کم نہ ہوگی ۔ ؎
انسان سمجھ پائے گا کیا خدا کو
جب ذات کا اپنی اسے عرفان نہیں
انسان کو جب اپنی معرفت حاصل ہوجائے تو اسے یہ حقیقت تسلیم کرنے میں ذرا بھی پس و پیش نہ ہوگا کہ وہ اس اتھا ہ و بسیط کائنات میں خالق کائنات کا شاہکار ہے ۔پانی کی بوند جو تخلیق آدم کی اصل ہے سے خلیفتہ الارض کے مقام عالی پر متمکن ہونا آخر کس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے ،یہی نا کہ بقیہ ان گنت اور لاتعداد مخلوق کے مقابلہ میں انسان کو خالق کائنات نے علم کے زیور سے آراستہ کیا ۔(یاد رہے کہ پہلی وحی علم ہی سے متعلق ہے)اور اس دولت سے بہرہ مند فرماکر اسے مسجود ِ ملائکہ بنالیا ۔‘‘( اس کے بعد )اللہ نے آدم (علیہ السلام)کو ساری چیزوں کے نام سکھا دئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا :اگر تمہارا خیال صحیح ہے تو ذرا ان چیزوں کے نام بتائو (ابقرہ:۳۱)یہ آیت انسان کے مسجود ِ ملائکہ ہونے کی ربانی توجیہہ ہے۔ربانی ارشاد ہے :’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ ذرا وہ وقت یاد کیجئے جب آپ ؐ کے رب نے عالم ملکوت سے کہا کہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے (سجدۂ تعظیم بجا لائے)تو تمام ملائکہ سوائے ابلیس کے آدم ؑ کے سامنے سجدہ ریز ہوئے ،ابلیس تاابد راندہ ٔ درگاہ بنا اور آدم مسوجدِ ملائکہ ٹھہرا ‘‘پھر سب کے سب فرشتوں نے اکٹھے ہوکر سجدہ کیا (السجدہ:۳۰)۔بات واضح ہوئی کہ مخلوقات ِ عالم کے بالمقابل آدم ؑ کو یہ تفوق و برتری علم کی بنیاد پر حاصل ہوئی۔اسی علم جسے علامہ ابن خلدون نے علم الادیان سے موسوم کیا ہے کی تکمیلی اور ابدی شکل قرآن ِ حکیم ہے جو انسانیت کیلئے ابدی ہدایت نامہ ہے ۔یہی ہدایت نامہ انسان کو راہ ِ راست پر گامزن ہونے کے گُر سکھاتا ہے اور اسے کائنات کی ان گنت اور بے شمار نعمتوں سے متمع ہونے کی سوجھ بوجھ عطا کرتا ہے۔ ورنہ اس کمزور و ناتواں مشتِ خاکی (انسان) کی کیا مجال کہ وہ سمندروں کے سینہ کو چیر کر دیو ہیکل جہاز اس پر چلائے ،بلند و بالا پہاڑوں اور کوہستانوں کو ریزہ ریزہ کرکے اس کی تہوں سے ان گنت دھات اور دیگر قیمتی اشیاء نکالے،اتنا ہی نہیں بلکہ وہ فضائے بسیط میں آسمانوں پر کمندیں ڈالے اور چاند کو شرف ِ قدم بوسی بخشے۔ازلی و ابدی ہدایت نامہ (القرآن)انسان کو اس بات کا مکلف ٹھہراتا ہے کہ اس کا وجود نوعِ انسانی کے لئے مضرت رساں نہیں بلکہ منافع بخش ہو ،وہ حقوق سے زیادہ اپنے فرائض پر نظر رکھے ،وہ اپنا مفاد حاصل کرتے ہوئے نوع انسانی کے دوسرے افراد کے حقوق کسی بھی صورت میں پامال نہ کرے۔وہ ہوا کو آلودہ ہونے سے احتراز کرے تاکہ نوع انسانی کو پینے کے لئے صاف پانی میسر ہو،وہ پانی کے ذخائر کو آلودہ نہ کرے تاکہ انسان صاف و شفاف پانی سے محروم نہ ہو،ہمارے یہاں نہ معلوم کسی غیبی طاقت کے اشارے پر مسجدوں اور دیگر مذہبی مقامات پر لاوڈ اسپیکروں کے غیر ضروری استعمال نے Noise pollotionکی شکل میں عامتہ الناس کو بالعموم اور طلباء ،مریضوں ،بچوں ،پیرانہ سالی کے شکا رافراد ،عابدوں ، زاہدوں اور مستغفرین بالا سحاراللہ والوں کو خواہ مخواہ کے شدید ذہنی و نفسیاتی کرب و تکلیف میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے اور ایسا غیر شرعی فعل کا ارتکاب کرنے والے شعور کی پوری بیداری کے ساتھ غیر شعوری طور پر اَن دیکھے مفاد ِ خصوصی رکھنے والے عناصر کے ہاتھوں میں نرا کھلونا بن کر اپنی ہی نوع کے دوسرے افراد کے لئے باعث شَر بنتے ہیں۔فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’ساری مخلوق اللہ کی عیال ہے تو مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ کو وہ محبوب ہے جو اللہ کی عیال کے ساتھ بھلائی سے پیش آئے (روہ البیہقی،مشکوٰۃ باب المشفقہ صفحہ ۲۱۷)بات واضح ہوئی کہ اللہ بھی ایک اور اللہ کی مخلوق بھی ایک۔اسلامی تعلیمات اس حقیقت کی غمازی یوں کرتی ہیں کہ اسلام جو دینِ فطرت ۔۔۔کا ئناتی دین ہے ،وحدت اللہ کے ساتھ وحدت ِ آدم کا تصور بھی پیش کرتا ہے ۔لہٰذا انسان جس کا’’ مادہ اُنس‘‘ یعنی محبت و شفقت ہے کو بھی یہی بات زیب دیتی ہے کہ وہ اپنی نوع کے دوسرے افراد کے ساتھ قطع نظر رنگ و نسل ، ذات و زبان ،ملک و وطن ،قبیلہ و خاندان ایک دوسرے کے تئیں ہمیشہ ہمیشہ محبت و شفقت کا مظاہرہ کرے کیونکہ یہی تخلیق انسان کی غایت اولیٰ و اعلیٰ ہے اور اسی سے یہ کائنات مثل جنت بن جائے گی نہ کہ جہنم زار ،جس کا آج کے دور میں ہر سُو مظاہرہ ہورہا ہے۔جس طرح جسم کے مختلف اعضا ء مثلاًآنکھ ،کان ،ناک ،منہ ، ہاتھ ،پیر یک جُٹ ہوکر بقائے جسم کی راہ میں محو ِ مستغرق ہیں اور جسم سے الگ ہوکر ان کا وجود نفی کے برابر ہے بعینہیہ عالم انسانی کی نشو و نما اور اس کا ارتقا اس بات میں مضمر ہے کہ انسان ِ عالم انسانی کے لئے اسی طرح اپنا فرض نبھائے جس طرح اعضاء انسانی جسم ِ انسانی کے لئے۔اسی بات کو ایمرسن نے یوں کہا ہے کہ ’’آدم پہلے ایک تھا پھر اس نے مختلف کاموں کے لئے اپنے آپ کو بے شمار آدمیوں میں تقسیم کردیا ‘‘۔علامہ مشرق ؒکے نزدیک بھی توحید کا اصل نکتہ یہی ہے کہ نوع ِ انسانی اپنی وحدت کا احساس کرے یعنی اس بات کو سمجھے کہ دنیا کے تمام انسان ایک خالق کی مخلوق اور ایک آدمی کی اولاد ہیں‘‘۔ ؎
شجر ہے فرقہ آرائی تعصب ہے ثمراس کا
یہ وہ پھل ہے جو جنت سے نکلواتا ہے آدم کو