سرینگر//عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل میں ملوث افراد کو رہا کئے جانے کے تامل ناڈو سرکار کے فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسی طرح سبھی کشمیری نظربندوں کو فوری طور چھوڑ دئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ قاسم فکتو،مسرت عالم بٹ اور ان جیسے دیگر سبھی نظربند سالہا سال سے جیلوں کے اندر سڑائے جارہے ہیں لہٰذا انکو فوری طور رہا کیا جانا چاہیئے۔ انجینئر رشید نے کہا’’راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی کے فیصلے نے ملک میں اپنا ئے جارہے دوہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے۔حالانکہ ریاستی دہشت گردی کے بدترین شکار ہونے کی وجہ سے کشمیری عوام تامل ناڈو سرکار کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ یہ سوال پوچھنے کا حق بھی رکھتے ہیں کہ اگر سابق وزیر اعظم کے قاتلوں تک کو رہا کیا جاسکتا ہے تو پھر قاسم فکتو،مسرت عالم اور ان جیسے دیگر کشمیریوں کو رہا کیوں نہیں کیاجاتا ہے جو حالانکہ کوئی مجرم نہیں بلکہ سیاسی قیدی ہیں جو مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کا مطالبہ کرتے ہیں‘‘۔انجینئر رشید نے کہا کہ اگر راہل گاندھی اپنے والد کے قاتلوں کو معاف کردینے کا دعویٰ کرسکتے ہیں تو کیا انسے یہ نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ انکی کانگریس نے مقبول بٹ اور افضل گورو کو معاف کیوں نہیں کیا۔حیران کن اور افسوسناک بات ہے کہ نئی دلی کو ہمیشہ کشمیریوں کو سولی چڑھانے کی جلدی ہوتی ہے یہاں تک کہ انکی نعشیں تک واپس نہیں کی جاتی ہیں لیکن دوسری جانب ان غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کو رہا کردیا جاتا ہے کہ جنکا جرم تک ثابت ہوچکا ہوتا ہے اور جنہیں عدالت نے سزا بھی سنائی ہوتی ہے۔انجینئر رشید نے کہا کہ مرکزی سرکار کو خود اپنے آئین و قانون کا کچھ لحاظ کرکے دوہرے معیار کو ترک کرتے ہوئے سبھی کشمیری نظربندوں کی فوری رہائی کا حکم صادر کرنا چاہیئے۔انہوں نے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ، اب جبکہ دونوں پارٹیاں کچھ دنوں سے یہ تاثر دینے لگی ہیں کہ انہیں اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ نئی دلی فقط کشمیریوں کو استعمال کرتی آرہی ہے ،انہیں آپس میں اتفاق رائے پیدا کرنے مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل کیلئے ٹھوس کوششیں شروع کرنی چاہیئں۔انجینئر رشید نے کہا’’نئی دلی کو نوشتۂ دیوار پڑھ کر یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ اگر اسکی ’’پراکسیز‘‘سمجھی جانے والی نیشنل کانفرنس اور پی ڈٰ پی تک انتخابات سے دور بھاگتی ہیں تو پھر ایک عام کشمیری میں نئی دلی کے تئیں کس حد تک احساسِ بیگانگی ہوگا۔نئی دلی یا تو موقعہ غنیمت جان کر جارحیت پر مبنی اپنی جھگڑالو پالیسی کو بدل دے یا پھر جموں کشمیر میں جمہوریت کا جنازہ اٹھنے کا تماشہ دیکھنے کیلئے تیار رہے۔اس دوران انجینئر رشید نے گورنر انتظامیہ کی جانب سے قوم کے معمار سمجھے جانے والے اساتذہ کو سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور کئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ احتجاجی اساتذہ کے جائز مطالبات کو فوری طور حل کیا جانا چاہیئے۔انہوں نے گرورہ لنگیٹ میں ایک اینکاونٹر کے دوران دو جنگجوؤں کے مارے جانے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ایک نہیں تو دوسرے بہانے سے کشمیریوں کا قتل عام کرنے کی بجائے نئی دلی اس بات کو مان لینے پر خود کو آمادہ کرے کہ جموں کشمیر میں سرگرم جنگجوؤں کو لوگوں کی زبردست حمایت حاصل ہے لہٰذا جنگجو قیادت کے سمیت سبھی متعلقین کو میز پر بلاکرستر سال پرانے مسئلہ کشمیر کے تصفیہ کی خاطر غیر مشروط مذاکرات شروع کئے جانے چاہیئں۔