2014کے تباہ کن سیلاب کے بعد حکومتی سطح پر اعلان کیا گیا تھا کہ اولین فرصت میں دریائے جہلم کی کھدائی عمل میں لاکر اس کے کناروں کو ناجائز تجاوزات سے پاک کیاجائے گا۔سیلاب کو آئے اب سات سال ہوچکے ہیںلیکن حکومتی اعلان حکم نواب تادر نواب ہی ثابت ہوا ۔نہ ہی جہلم کی کھدائی عمل میں لائی اور نہ ہی اس کی معاون ندیوں کو وسعت دینے کا عمل شروع کیا گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ جہلم سمیت تمام ندی نالوں اور دیگر آب گاہوں کو ناجائز تجاوزات سے پاک کرنے کی مہم بھی دم توڑ بیٹھی ۔سیلاب کے بعد بار بار کی عدالتی پھٹکار کی وجہ سے حکومتی مشینری کسی حد تک متحرک ہونے لگی تھی اور نہ صرف جہلم بلکہ فلڈ چینلوں کی کھدائی کا عمل شروع کرکے جہلم سمیت تمام ندی نالوں کے کناروں سے ناجائز تجاوازت ہٹانے کا بیڑا اٹھالیاگیا تھا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ،یہ مہم خاموشی کی موت مر گئی اور جہلم سمیت تمام ندی نالوں کے کناروں پر غیر قانونی تعمیرات کا لامتناہی سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا جو ہنوز جاری ہے ۔آخر ایسا کیا ہوا کہ عدالتی احکامات کے باوجود انتظامی مشینری اپنے فرائض کی انجام دہی سے کترا رہی ہے ؟۔جواب ڈھونڈنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس کے پیچھے سیاسی کارستانیاں ہیں اور اپنے آپ کو عوام کو محافظ کہلا نے والے عوامی نمائندوں نے ہی محض ووٹ بنک سیاست اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے انہدامی مہم کو روک لیاتھا اور متعلقہ افسران کو حالات کی سنگینی سے بے خبر ہوکر آنکھیں بند کرنے کا مشورہ دیا تھا۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سیلاب کی وجہ سے لاکھوں ٹن مٹی ندیوں میں بھر گئی جس کی وجہ سے ندی نالوں کی گہرائی میں کافی کمی واقع ہوئی تھی اور ایسے میں چند بوند بارشوںکے بعد ہی ندی نالوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے لیکن حکمران ٹس سے مس نہیںہورہے ہیں ۔بار بار فنڈس کی عدم دستیابی کا بہانہ بنا کر ہر معاملہ میں حکومت صاف بچ نکلنے کے فراق میں ہوتی ہے لیکن کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں راہ فرار اختیارکرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے اور انسداد سیلاب کا معاملہ بھی ایسے ہی اہم اور سنگین معاملات میں آتا ہے لیکن یہاں چونکہ حکمران اب عوام کو سبز باغ دکھا کر پھر وعدے فراموش کرنے کے عادی ہوچکے ہیں تو انہیں ممکنہ سیلاب کی سنگینی کا ادراک بھی شاید نہیں ہورہا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہوں نے اگر صد فیصد نہیں تو کم از کم پچاس فیصد کام مکمل کرلیا ہوتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دس فیصد کا م بھی نہیں ہوا ہے ۔اب جبکہ جہلم توی ریکوری پروجیکٹ کے تحت رقوم کی کوئی کمی نہیں ہے اور متعدد کام در دست لئے گئے ہیں تو امید کی جانی چاہئے کہ مزیدوقت ضائع کئے بغیر سیلاب کے مستقل خطرات کو ٹالنے کیلئے انسداد سیلاب کا جامع پروجیکٹ در دست لیاجائے گا جس میں کھنہ بل سے ولر تک ایک متبادل فلڈ چینل کی تعمیر کے علاوہ جہلم سمیت تمام معاون ندی نالوں کی کھدائی اور ان کے پشتوں کی مضبوطی کے علاوہ کناروں سے ناجائز تجاوزات ہٹانے کا عمل شامل ہے ۔ ایک بات طے ہے کہ صرف کھنہ بل سے ولرتک متبادل فلڈ چینل کی تعمیر پر ہی ہزاروں کروڑ روپے کی رقم درکار ہوگی جبکہ جہلم اور دیگر ندی نالوں کی کھدائی اور کناروں کی مضبوطی بھی ایک ایسا کام ہے جس پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ ہونگے ۔ایسے میں رقوم کی دستیابی کا بھی انتظام کرنا پڑے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ رقوم میسر ہوتے ہوئے بھی یہاں کام نہیں ہوتے ہیں وگرنہ آج تک جے ٹی آر ایف کے تحت انسداد سیلاب کا فول پروف نظام بن چکا ہوتا۔ہمارے یہاں افسر شاہی سے لیکر نچلی سطح کے ملازمین کو کاہلی کی عادت پڑ چکی ہے اور وہ از خود کوئی کام کرنے کوتیار نہیں ہیں بلکہ اُنہیں جگاتے رکھنا پڑتا ہے ،جبھی کوئی کام مکمل ہوتا ہے۔ اب جہاں تک انسداد سیلاب کا تعلق ہے تو اس مسئلہ میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اترا کھنڈ کی حالیہ تباہی نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں ۔ناگہانی آفت دستک دیکر نہیں آتی ہے ۔یہ جب آتی ہے تو بنا پوچھے آتی ہے اور سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتی ہے ۔مانا کہ یوٹی انتظامیہ نے سیلابوں کی پیش گوئی کیلئے برطانوی خلائی ایجنسی سے معاہدہ کیاہے لیکن یہ معاہدہ اُس وقت تک کارگر ثابت نہ ہوگا جب تک سیلاب سے نمٹنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔وہ پیش گوئی کیا کرے گی جب زمینی سطح پر سیلاب سے ہونے والی ممکنہ تباہ کاریوں کو روکنے کیلئے انتظامات ہی نہیں کئے گئے ہوں۔اس لئے ابھی بھی وقت ہے کہ پیش گوئی نظام متعارف کرنے کے ساتھ ساتھ امکانی تباہ کاریوں کو روکنے کا بھی بندو بست کیاجائے تاکہ جب حسب پیش گوئی سیلاب آجائے تو وہ شہر کو اپنے ساتھ بہا کر نہ لے جائے۔