جن لوگوں نے ہندوستان کے خوشگوار ماحول کو خراب کیا ہے اور مادر وطن کی پیشانی پر یہ بدنما داغ لگائے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو سکون مل گیا۔ کیا معصوم انسانوں کا خون بہا کر، گھروں کو مسمار کرکے، عبادت گاہوں کو جلاکر ان کی تشنگی بجھ گئی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ یہ تو وہی لوگ اچھی طرح جانتے ہوں گے جنہوں نے یہ انسانیت سوز حرکتیں کی ہیں یا جنہوں نے کرائی ہیں کہ ان کے دل پر اپنے ہی ہم جنس انسانوں کا خون بہاکر کیا کچھ گزری ہے۔ لیکن مجموعی طور پر انسان ظلم کر کے دوسروں کا چین و سکون برباد کر کے خود آرام اور سکون سے رہ جائے ایسا ناممکن ہے۔ ہاں کوئی انسان حیوان بن جائے اور رحم اس کے اندر سے ختم ہوجائے تو اس کے لیے یہ ممکن ہو سکتا ہے۔
اللہ نے انسان کو حیوان نہیں بنایا اور نہ اس کے ہاتھوں کو تلوار بنایا، نہ اس کے دانتوں اور ناخنوں کو بھیڑ یے اور شیر کی طرح بنایا، نہ اس کے دماغ میں شیطان کی طرح تخریب کاری رکھی بلکہ اس کے اندر محبت رکھی ہے، رحم رکھا ہے، پیار رکھا ہے، ممتا رکھی ہے،اس کو حسن و جمال کا پیکر بنایا ہے۔ پھر انہیں بنیادوں پر اس کواشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔ غرض حیوانوں کی تمام اقسام سے اس کو دور رکھا گیا ہے۔ اس کو کتا پالنے سے بھی اس لیے منع کیا گیا ہے کہ کہیں کتے کی یہ خصلت اُس پر حاوی نہ ہوجائے کہ وہ اپنے ہی ہم جنس کتوں کو اپنے علاقے میں دیکھ کر نہ صرف آپے سے باہر ہوجاتاہے بلکہ ان کو پھاڑ کھانے کو تیار ہو جاتا ہے اور کسی صورت بھی ان کا داخلہ برداشت نہیں کرتا۔ اس بنیاد پر کتے کو پالنے سے منع کر دیا کہ کہیں یہ خصلت اس کی انسانوں کے اندر پیدا نہ ہو جائے کہ وہ بھی اپنے ہم جنس انسانوں سے نفرت کرنے لگے۔ واقعہ یہ ہےکہ اگر انسان کے اندر سے رحم ختم ہو جائے، محبت ختم ہو جائے، وہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند کر دے، تو وہ انسان نہیں رہ سکتا بلکہ وہ بھیڑ یا یا کوئی درندہ ہوگا جو انسانوں کی شکل میں لوگوں کے درمیان میں موجود ہے۔
لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ انسانوں کو بھیڑیے کون بنا رہا ہے۔ کون ان کے دلوں میں نفرت کے بیج بو رہا ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ ملک میں بھائی چارہ بنا رہے۔ کون نہیں چاہتا کہ ملک کی سالمیت باقی رہے۔ اس سوال کا صاف جواب یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان نہیں چاہتے کہ ملک میں امن و امان قائم رہے۔ لوگ پیارو محبت سے زندگی گزار یں وہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ ایک دوسرے کا غم بانٹیں۔ کیونکہ اگر وہ پیار و محبت کی باتیں کریں گے تو ان کی ناکامی کی ہوا نکل جائے گی، ان کاسکہ بند ہو جائے گا، ان کی ناجائز سیاسی دکانوں پر تالا لگ جائے گا۔ اس لیے نفرت کا سہارا لیکر وہ اپنی بقا کو استحکام عطاء کرتے ہیں۔
میں نفرت کا درس دینے والوں سے پوچھتا ہوں کہ تم جن لوگوں کو مار رہے ہو، کیا وہ تمہارے بھائی نہیں ہیں، کیا ان کا تعلق اسی ملک سے نہیں ہے۔ آج تم ان کو مارہے ہو، کیا وہ اور ان کی نسلیں اس ظلم کو بھول جائیں گی۔ مظلوم قومیں جب گھروں سے خالی ہاتھ نکل آ تی ہیںتو ان کا سلوک کیا اور کس طرح ہوتاہے کسی فرانس یا روس کے انصاف پسند مصنف سے پوچھ لیجئے۔ میں ان مظلومین سے ایک بات کہتا ہوں کہ تم اپنا دفاع خود کرو۔ ذلت کی موت سے بہتر عزت کی موت ہے۔ اس لیے دست و بازوں کا استعمال امن و امان قائم کرنے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
ظہیر الدین بابر کی اپنے بیٹے ہمایوں کو اہم نصیحت کی جو ہندوستان کے مستقبل کو تابناک بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور یہاں کی حکمراں جماعت کو آئینہ دکھا سکتی ہے۔ کہا: میرے بیٹے ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے۔ ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی عنایت ہے کہ اس نے تمہیں اس ملک کا باشاہ بنایا ہے۔ اس لیے تمہیں کچھ وصیت کرتا ہوں جن کا خیال تمہارے لیے بہت ضروری ہے۔
(۱)تم مذہبی تعصب کو ہر گز اپنے دل میں جگہ نہ دو اور لوگوں کے مذہبی جذبات اور رسوم کا خیال کرتے ہوئے کسی رعایت کے بغیر سب کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا۔
(۲) گئو کشی سے مکمل پرہیز کرنا تاکہ اس سے تمہیں لوگوں کے دل میں جگہ مل جائے۔
(۳) تمہیں کسی قوم کی عبادت گاہ مسمار نہیں کرنی چاہئے۔
(۴) اسلام کی اشاعت ظلم و ستم کی تلوار کے مقابلے میں لطف و احساس کی تلوار سے زیادہ بہتر ہو سکے گی۔
انصاف اور انسانیت ہی کی بنیاد پر ایک خوبصورت ہندوستان کا تصور ممکن ہے، ماضی میں بھی اسی تصور کی بنیاد پر ہندوستان سونے کی چڑیابنا تھا اور مستقبل میں بھی اسی صورت میں اس کی بقاء اور خو ش حالی ممکن ہے۔ نفرتوں سے ظلم سے تعصب سے ہندوستان کا خوبصورت تصور ادھورا سا لگتا ہے اور نہ اس تصور کی بنیاد پر دنیا میں اس کی انفرادیت باقی رہ سکتی ہےبلکہ اس کی انفرادیت اور امتیاز آپسی بھائی چارگی میں ہی پوشیدہ ہے۔