اس کائنات میں کوئی حساس اور باشعور آدمی ایسا نہیں جس کو کوئی نہ کوئی فکر لاحق نہ ہو،کسی کو دولت کی فکر ہے کسی کو جائیداد کی فکر ہے،کسی کو عزت اور بلندی کی فکر ہے ،کسی کو دنیا میں ترقی اور کامرانی کی فکر ہے ،کسی کو اقتدار اور حکمرانی کی فکر ہیاور کسی کو محض دو وقت کی روٹی کے لئے نوکری یا روزگار کی فکر ہے،غرض ہر شخص کسی نہ کسی فکر میں مبتلا ہے ،کسی نہ کسی خیال میں غرق ہے اور کسی نہ کسی تشویش میں گرفتار ہے۔اس لئے بے فکر ہوکر زندگی بسر کرنا نہ صرف نا ممکن ہے بلکہ فطرت ِ انسانی کے بالکل خلاف بھی ہے۔ہاں ! یہ امر غور طلب ضرور ہے کہ آخر ہمیں کن باتوں کی فکر کرنی چاہئے؟ کیا وہ باتیں جن کی تلاش و جستجو میں ہم اپنی جان کھپاتے ہیں واقعی ہمیں کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔اگر نہیں تو پھر یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ ہم اپنی قیمتی زندگی لاحاصل فکر میں گزار دیں؟جبکہ آخرت کے مقابلے میں دنیا سے ہماری محبت نے ہمیں فکرِ لاحاصل میں مبتلا کردیا ہے۔
کیا آپ جانتے نہیں کہ اسلام ہر ایسی زندگی کو جاہلیت کی زندگی قرار دیتا ہے جس میں انسان اپنے وجود کے مقصد اور حکمت سے بے بہرہ اپنے خالقِ حقیقی سے منحرف ہو،جس کے نتائج لازمی طور پر تباہ کن ہی ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے جدید مادی تہذیب اْس سے بھی بہت زیادہ جاہلیت پر مبنی ہے جو دورِ قدیم میں موجود تھی۔مسئلہ خواہ عصر ِ حاضر کا ہو یا کسی بھی دور کا ،اسلام کی نظر میں انسانی زندگی میں بگاڑ اور فساد ہمیشہ اس بنا پر ہوتا ہے کہ اسے فطرت کی راہ راست سے ہٹاکر غلط اور ناہموار راہوں پر دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔لہٰذا انسانی بگاڑ کا واحد علاج اس فکری جاہلیت کا خاتمہ ہے با لفاظ دیگر انسان کی حقیقی فلاح اور کامیابی کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مقصد ِاصلی سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے اسے پورے شعور کے ساتھ قبول کرے اور اس سفر کی منزل کا نقطہ آغاز اْس ہستی پر ایمان لاکر اْس کی ہدایت کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کرے، جس نے اسے پیدا کیا ہے ،جو انسان سمیت پوری کائنات کامالک ِحقیقی اور مقتدر اعلیٰ ہے۔جو غنی وحمید ہے ،سمیع وقریب ہے ،مجیب وربّ ہے ،مستعان اورحکیم و خبیر ہے اورہم اْس کے محکوم و مربوب ہیں ،بندے اورغلام ہیں۔
کوئی بھی صاحبِ عقل جب انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں پر غور کرے تو اْس کے لئے اعتراف کے بغیر چارہ نہیں کہ ا س دنیا میں انسان کی آمد کے کسی بھی مرحلہ کا تعلق خود اس کی پسند و ناپسند اور اختیار و اِرادہ سے نہیں ہے۔لہٰذا انسان کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ اس قادر مطلق کو پہچانے ،جس کا وجود اس کی زندگی ،اس کی پیدائش اور اس کی صورت گری کا مختار ہے اور جس نے اسے اس کی اجازت یا مرضی کے بغیر محض اپنی مشیت سے اِس دنیا میں پیدا کیا ہے۔اس بیّن اور ناقابل ِ انکار حقیقت کے باوجود انسان کے لئے اپنے ربّ سے انحراف اور روگردانی کا کیا جواز ہے ؟کیا انسان اس خیال ِ خام میں مبتلا ہے کہ وہ خود بخود عدم سے وجود میں آیا ہے اور اس عدم کے ذریعہ ہی، جس کا خود کوئی وجود نہیں،اس کی ترکیب و تخلیق عمل میں آئی ہے۔کیا انسان اس حقیقت سے واقف نہیں کہ عدم کے لئے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ شئے پیدا کرنا محال در محال ہے بلکہ انسان اس بات سے بھی بے خبر ہے کہ وہ خود کسی چیز کو پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔انسان کے لئے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ کسی چیز کی ملکیت کا ثبوت یہ ہے اسے اپنے مملوک پر تصرف کی آزادی حاصل ہو اور مملوک اس کی مرضی کا پابند ہو۔اب ہر شخص غور کرے کہ اس کی پوزیشن کیا ہے؟کیا اس دنیا میں وہ اپنی مرضی اور اختیار سے آیا ہے؟ کیا اپنے باپ اور اپنی ماں کا انتخاب اپنی مرضی سے کیا ہے؟کیا یہ فیصلہ بھی اس نے کیا ہے کہ دنیا کے کس علاقے میں اور کس وقت میں اْسے پیدا ہونا ہے؟ پھر اس کی یہ صورت اور ساخت ،جس کی جسمانی صفات،اس کی نفسیاتی اور عقلی صلاحیتیں کیا اس سب کو اْس نے اپنی مرضی اور مشیت سے حاصل کی ہیں؟عقل و ہوش کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان ایسی چیز کی فکر کرے جو دائمی اور حقیقی ہو،کیونکہ عارضی اور فانی چیز اپنی بے پناہ لذتوں اور مسرتوں کے باوجود کسی مستقل اور دائمی راحت پر کبھی ترجیح حاصل نہیں کرسکتی۔مگر نقطہ نظر کی تبدیلی اور فکرِ آخرت سے محرومی یا فراموشی کی وجہ سے ہم میں دنیا کی چیزوں سے لذت حاصل کرنے کا ایک جنون اور اس کے نتیجہ میں ایک بحران پیدا ہوگیا ہے۔ہماری ساری کوششیں زندگی کی لذت حاصل کرنے کے لئے صرف ہورہی ہیں اور ہمارے اس طرز عمل نے زندگی کو مسابقت کا ایسا میدان بنادیا ہے جس کا کوئی منتہا نہیں۔زندگی ایک نہ سمجھنے والی پیاس اور حوائج ِ زندگی کی تکمیل ایک نہ مِٹنے والی بھوک بن چکی ہے۔ضروریات بڑھتی جارہی ہیں ،نفس کے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں ،سامانِ حیات میں تنوع بڑھتا جارہا ہے اور حرص و ہوس کے اس طوفان میں ہر شخص جب آنکھ اٹھاکر دیکھتا ہے تو اس کی منزل مقصود نظر آتی ہے،وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک عذاب میں مبتلا ہے۔چنانچہ الحاد اور مادہ پرستی کے اثرات انسانی معاشرے پر نام نہاد فکری دعویداروں نے انسانی زندگی کو مسائل و پیچیدگیوں سے پاک اور امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی جتنی کوششیں کی ہیں سب ناکام ہوئیں۔انہیں شکست فاش ہی کا سامنا کرنا پڑا ہے ،انہوں نے مسائل کو سلجھانے کی جتنی تدبیریں کیں ،اْن کی ان تدبیروں اور کوششوں کا نتیجہ نہ صرف مزیداْلجھائو کا باعث ہوابلکہ کئی گنا اضافہ کا سبب ہوا ہے۔ان ساری ناکامیوں اور نا مرادیوں کا بدیہی سبب یہ ہے کہ ان حضرات نے اپنی کوششوں کی بنیاد ہی الحاد اور مادہ پرستی پر رکھی ہے اور یہی نظریہ سارے بگاڑ کی اصل جڑ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر انسانیت کو موجودہ فکری بحران ،سماجی انتشار اور اخلاقی پستی سے نجات دلانی مقصود ہے تو سب سے پہلے اس فکر و عمل پر ضرب کاری لگانی ہوگی جس کی بنیاد پر موجودہ تہذیب کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔
آج تک جوبھی حکمران گزرے ہیں،بیشتر کی یہی کہانی ہے کہ وہ اپنے آپ کو قوم کا پارسا جتلاکر اقتدار پانے اور اْسے طول بخشنے کی جدوجہد کے دو تین عشروں بعد مر کھپ گئے ہیں اور اپنی کارستانیوں کی ہیبت ناک داستانیں چھوڑ کر عبرت کا نشان بن چکے ہیںجبکہ دنیا بھر کے موجودہ حکمران بھی انہی کی راہ پر گامزن ہیں۔بظاہر ہر انسان کی کہانی ایک دوسرے سے تو مختلف لگتی ہے حالانکہ ایک ہی کھیل ہے جو لاکھوں سال سے کھیلا جارہا ہے۔بغور دیکھا جائے تودنیا میں ہماری زندگی، عمر بھر کی انسانی جدوجہد تین چار بنیادی جذبات کی محتاج ہے: اپنی ذات سے شدید ترین محبت، جان بچانے کا خوف، اولاد کی محبت اور مادے (وسائل)کی محبت۔ غصہ، انتقام، نفرت سمیت تمام منفی جذبات اپنی ذات سے اسی محبت کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ ہر جبلّت کے پسِ منظر میں یہی محبت ہے،حتیٰ کہ جان بچانے کا خوف بھی اسی کا مرہونِ منت ہے۔ اپنی ذات سے شدید ترین محبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ تمام تر محرومیوں کے باوجود وہ اپنی زندگی کی حفاظت کرتا رہے۔ کوئی جذبہ اگر اس پہ غالب نظر آتاہے تو وہ اولاد کی محبت ہے کیونکہ خوف بھی بڑا بنیادی جذبہ ہے۔انسان میں جذبات پیچیدہ ترین صورت اس لیے اختیار کرجاتے ہیں کہ وہ عظیم انسانی عقل کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ عقل اْسے ٹوکتی ہے، اْسے اپنے خطاکار اور گناہ گار ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے مگر آدمی جرم پہ جرم کرتار ہتا ہے۔ و ہ دوسروں کا حق کھاتاہے۔دوسروں کے وسائل پہ قابض ہونے کے لیے انہیں ہلاک بھی کر ڈالتاہے۔ چنانچہ جوں ہی وہ جرم اور گناہ میں ملوث ہوتاہے، ساتھ ہی اْ س میںخوف بڑھتا چلا جاتاہے۔ بظاہر وہ خوش و خرم ہوتاہے مگر اندر ہی اندر ایک خلش اْسے بے چین کیے رکھتی ہے۔ بظاہر وہ چالاکی سے دوسروں کو لا جواب کرتا رہتا ہے، خود کو حق پہ ثابت کرتاہے مگر اندر ہی اندر جو خوف اسے کھائے جاتاہے، اس خوف میں اضافہ ہوتا رہتاہے حتیٰ کہ پْر سکون رہنے کے لیے وہ بدعات و خرافات کو ترجیح دیتاہے، منشیات کا سہارا لیتا ہے، الکحل پینے لگتاہے۔، بددیانتی ،بے ایمانی ، کرپشن ،بے حیائی ،بے راہ روی اور ناجائز منفعت پرستی کی زندگی میں ارب و کھرب پتی بھی ہو جاتاہے لیکن یہ خوف اس کا نظامِ انہضام تباہ کر ڈالتاہے،اْسے اپنے دماغ کی رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیںاور بالآخرخوف اْسے مارڈالتا ہے کیونکہ جہاں موقع ملے، شیطان انسان کے اندر یہ احساس پوری قوت سے پیدا کرتاہے کہ اس سے ایسے گناہ سرزد ہو چکے ،جن کی معافی کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔یہ شیطان کی طرف سے اس توبہ کا انتقام ہے ، جو آدمؑ نے خدا کے حضور پیش کی اور قبول کر لی گئی۔ شیطان یقین دلاتا ہے کہ انسانیت کے رتبے سے وہ نیچے گر چکا ہے ،لہٰذا اب اسے مر ہی جانا چاہیے۔ بلا شبہ مستقل طور پر ایسے خیالات کے حصار میں رہنا جو انسان کو تکلیف پہنچا رہے ہوں، ذہن کے لیے بہت نقصان دہ ہوتاہے۔چنانچہ آدمی میں مادی وسائل کی محبت پیدا کی گئی ہے اس لئے دولت بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ محبت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے ،یہاں تک کہ آدمی روپیہ کمانے کی مشین بن کر رہ جاتاہے۔ ضرورت سے بہت زیادہ مال جمع کرنے اور جمع ہی کرتے چلے جانے کی بیماری کا ذہنی مریض بن جاتا ہے،گویا توازن سے محروم ہوجاتاہے اوردولت جمع کرتے کرتے قبر میں جا لیٹتا ہے۔
انسان کی تمام کوششوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حقیقی کامیابی حاصل کرنے کا فطری طریقہ یہی ہے کہ کسی بڑی تکلیف و مصیبت سے رہائی کے لئے تھوڑی سی تکلیف گوارا کرلی جائے ،عارضی کامیابیوں کو اس غرض قربان کیا جائے کہ آئندہ کی خوشی اور دائمی کامیابی نصیب ہو ،مگر ہماری خود فریبی کا یہ عالم ہے کہ ہماری فکر کے موضوعات میں وہی چیزیں اہم ہوگئی ہیں جو فانی ہیں اور جن کی ساری چمک دھمک زندگی کی دیوار سے اترتی ہوئی دھوپ کی حیثیت رکھتی ہے۔بلند حوصلگی کا تقاضا ہے کہ ایک خوشگوار اور دائمی مستقبل کے لئے ہم مشقتیں برداشت کریں،مصائب و آلام کا مقابلہ پامردی اور ہمت کے ساتھ کریں، اس لئے کہ ہمارے سامنے ایک بلند منزل ہے ،ایک اعلیٰ نصب العین ہے ،ایک ممتاز مطمح نظر ہے۔ہاں! یہ صحیح ہے کہ زندگی بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔دنیا اور اس کی آسائشیں بھی اس کی عنایتوں سے میسر ہیں ،ان سے فائدہ اٹھانا،سلیقے سے زندگی گزارنا ،عافیت اور آرام کی قدر کرنا ،معاشی جدو جہد کرنا ،دنیوی ترقی کی منزلیں طے کرنا فکرِ آخرت کے خلاف نہیں۔فکرِ آخرت سے غفلت ہے کہ انسان ان چیزوں کو اپنا مقصود بنالے اور اللہ کی رضا اور خوشنودی کے بجائے کسی اور چیز کا طلب گار رہے ،اور آخرت کو بھول کر دنیوی ترقی کی دوڑ میں کتاب اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرجائے۔
سادہ زندگی، باعزت طور پر ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کی جدوجہد، حصولِ علم، دوسروں کے تکلیف دینے والے روّیوں کی بنیاد کو سمجھنا، اپنا تجزیہ، زندگی کو سمجھنے کی کوشش اور خود احتسابی کے جذبہ کو پیدا کرنے سے ہی سے انسان طمانیت بھری زندگی بسر کر سکتا ہے۔ آدمی کو اپنی تمام زندگی کسی ایک خونخوار جبلت کے حوالے نہیں کر دینی چاہیے۔سفرِ حیات چاہے جس قدر بھی طویل ہو ،سفر ہے اور اس کی منزل آخرت ہے۔ہر شخص کو لوٹ کر وہیں جانا ہے جہاں ذرے ذرے کا حساب ہوگا ،جہاں سارے اعمال کی پوچھ گچھ ہوگی۔جزا اور سزا کے اٹل قانون کا سامنا ہر ایک کو کرنا ہے۔