ایسا لگتا ہے کہ وادیٔ کشمیر میں انجینئرنگ شعبے محض برائے نام کے قائم ہیں،کیونکہ گذشتہ تیس برسوں میں اس شعبے کی طرف سے ایسی کوئی کارکردگی سامنے نہیں آ سکی ہے ،جسے قابل قدر یا قابل ذکر کہا جاسکتا۔البتہ انجینئرنگ شعبوں نے جو سب سے نمایاں کام سر انجام دیا ہے ،وہ اُن کی بد عنوانیوں کے نام پر ہی یاد کیا جارہا ہےبلکہ بعض اوقات اس معاملے میں انہوں ریکارڈ بھی قائم کردیئے ہیں۔آج بھی اگر وادی کے اطراف و اکناف کے دیہات ،دور دراز علاقوں میں عموماًاور شہر سرینگر کے گنجان آباد علاقوں میں خصوصاً انجینئرنگ شعبوں کی طرف سے کئے جارہے کام کا بغور جائزہ لیا جائے تو صورت حال میں کسی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیںجبکہ پبلک رقومات کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے کے لئے نت نئے طریقے استعمال کئے جارہے ہیں۔جس سے یہ بات پھراُبھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ابھی تک انجینئرنگ شعبوں میں شفافیت لانے اور انہیں مفید اور موثر کام کے اہل بنانے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہوئی ہےاورنہ ہی ان شعبوں کی کارکردگی کا موثر طریقے پر محاسبہ کیا جارہا ہے۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ شعبے روایتی پالیسیوں کے تحت مصلحتوں اور مفادات کے مطابق ہی اپنا کام چلا رہے ہیں۔چنانچہ گذشتہ تین عشروں کے دوران جتنا سرمایہ تعمیراتی کاموں پر صرف کیا جاچکا ہے،اُس کا محاصل بھی سب کے سامنے ہے۔شہر سرینگر کے گنجان آباد علاقوں خصوصاً شہر خاص جسے اب ڈائون ٹائون کے نام سے بھی یاد کیا جارہا ہے،کی حد درجہ خستہ حالی اور مختلف مضافات کی شکستہ صورت حال اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔کروڑوں روپے کے اخراجات دکھائے جانے کے باوجود ڈل جھیل اور دیگر جھیلیںبدستور روبۂ زوال ہیں۔پینے کے پانی کو کوئی بھی پروجیکٹ عوام کو پانی کی سپلائی بہتر ڈھنگ سے دستیاب کرنے کا سبب نہ بن سکا۔آج بھی بیشتر دیہات سمیت شہری عوام کی ایک خاصی تعداد پینے کے صاف پانی کے لئے ترستی رہتی ہے۔اگرچہ مختلف علاقوں میں نکاسی آب کے کاموں پر اَن گنت رقومات خرچ کی گئیں لیکن نکاسی آب کا مسئلہ جُوں کا تُوں ہے۔جو کوئی ڈرین تعمیر کی گئی وہ محض چھ ماہ تک بھی صحیح حالت میں رہ نہیں پاتی بلکہ لاکھوں لوگوں کی رہائشی مکانوں اور دوسرے تعمیرات کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں۔مختلف سڑکوں ،شاہراہوں کی بار بار تعمیر کے باوجود ان کی ناگفتہ بہ حالت آج بھی انجینئرنگ شعبوں کی بدعنوان اور ناقص کارکردگی پر ماتم کررہی ہیں۔تعجب کا مقام ہے کہ مختلف سڑکوں ،شاہراہوں ،پُلوں اور دیگر ترسیلی سڑکوں پر جو فُٹ پات تعمیر کئے جاتے ہیں ،وہ ہر چھ ماہ کے بعد دوبارہ تعمیر کرنے پڑتے ہیں،یہی صورت حال شہر بھر تعمیر کی جارہی نالیوں اور ڈرینوںکی بھی ہوجاتی ہے،جس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جو رقومات ان پرجیکٹوں یا تعمیراتی کاموں کے ناموں پر متعلقہ شعبوں کے افسر ، اہلکار اور ٹھیکیدار حاصل کررہے ہیں ،اُس کا ساٹھ فیصد حصہ یہ لوگ مل بانٹ کر خود ہضم کررہے ہیںاور پھر بھی ان لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انجینئرنگ شعبوں میں چوری چکاری ،لوٹ کھسوٹ اور بد عنوانیوں میں ملوث تمام لوگوںکا احتساب کیا جاتا اور انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تاکہ اُنہیں ،اُن کی کرتوتوں کی سزا مل جاتی اور اِس روایتی بُرائی اور خرابی کا انسداد ہوجاتا ،لیکن بد قسمتی ایسا نہ ہوا اور نہ ہورہا ہے۔جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی بد عنوانیوں میں ملوث بیشتر انجینئر اور اُن کے ماتحت عملے آج بھی اپنی روایتی پالیسی پر گامزن ہیںاور اس طرح حسبِ معمول مختلف تعمیراتی کاموں کے لئے ادا کی جارہی خزانہ عامرہ کی رقومات تواتر کے ساتھ بُرباد ہورہی ہیںاور کوئی بھی کام پائیدار بنیادوں پر نہیں ہورہا ہے ،اور اس طرح عوامی مفادات کا نقصان حسبِ دستورجاری و ساری ہے۔