۔افریقیوں کے خون سے بنیادپانے والے امریکہ میں آج ہرطرف ٹرمپ ہی ٹرمپ نظرآرہے ہیں ۔انہی ٹرمپوں میں سے ایک 64 ؍سالہ سٹیفن پیڈک نے مینڈیلے بے ہوٹل اور کسیی نو کے باہر منعقد ہونے والی شراب وشباب کی محفل’’ والین میوزک فیسٹیول ‘‘میں شریک امریکیوں پر 3؍اکتوبر2017ء سومواراور منگل کی درمیانی شب فائرنگ کر کے کم سے کم 58 ؍افراد کو ہلاک جب کہ500 ؍سے زیادہ افراد کو زخمی کر دیا ۔امریکی ریاست لاس ویگس میں ایک کنسرٹ پر حملہ کرنے والا مسلح شخص سٹیفن پیڈ وک دراصل امریکی صدر ٹرمپ جو پوری دنیاکوللکاررہاہے ،سے ملتی جلتی ذہنیت کاحامل قاتل تھا۔لاس ویگس کنسرٹ پر فائرنگ کا واقعہ جدید امریکی تاریخ کا سب سے مہلک ترین واقعہ ہے۔خیال رہے کہ گذشتہ برس جون میں فلوریڈا کے ایک نائٹ کلب میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں49 ؍سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ امریکہ جنگی ہسٹریا ،ذہنی افلاس اور نسلی تعصب کامارا ہوا ملک ہے ۔ خارجی سطح پروہ انسانیت اورعالمی امن کا کھلادشمن ہے،جب کہ درونِ خانہ نسلی تعصب کا شکارہے ۔اس کے ماتھے پریہ دونوں بدنما دھبے ایسے واضح طوردکھائی دے رہے ہیں کہ اس کی اصلیت اوراس کی حقیقت کیاہے ، یہ پہچاننے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی ۔ عالمی امن کوتہہ وبالاکرنے کے درپے عالمی پولیس مین امن کی نقاب اوڑھے اس انٹرنیشنل دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہے جس نے نہتے مسلمانوں کو خون میں نہلایا ،بارود اور آگ کے شعلوںسے مسلم ممالک کو کھنڈر بنادیا اور اب بھی مسلم ممالک اور اقوام کے خلاف فوج کشیاں کر رہاہے لیکن کمال مکاری سے الٹا مسلمانوں کودہشت گردکہلوانے ،مسلمانوں کے خلاف دنیاکو اُٹھ کھڑاہونے کا سبق پڑھارہاہے لیکن اسی امریکہ میں اب ایسے امریکی پل بڑھ رہے ہیں جوایک سے بڑھ کرایک قاتلانہ کارنامے انجام دے کر دنیا کو دہشت گرد کے اصل معنی اور مفہوم سمجھا رہے ہیں ،ان کی سفلی ذہنیت اور آدم خور نفسیات کچھ اس طرح ڈھالی گئی ہے کہ یہ بلاوجہ اوربے مقصد بدترین دہشت گردی کے بھی دھڑلے سے مرتکب ہورہے ہیں، یہ اپنے ہی ملک کے شہریوںکوجب چاہیں اورجس وقت چاہیں فناکے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔امریکہ کا اصلی اور حقیقی چہرہ،دیکھناہوتو حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے اس فرمودکوحرزجان بنانا ہوگا ؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
ہرصاحب بصیرت مسلمان کے ذہن میںایمان کی حدتک یہ امراراسخ ہے کہ دراصل امریکہ خارجی اورداخلی سطح پر انسانیت کے خلاف جرائم کامرکزہے۔خارجی سطح پراس کے جنگی جرائم ویت نام ، افغانستان ، پاکستان ، عراق ، شام، لیبیا، مصر وغیرہ ممالک کے علاوہ دنیا میں روئے زمین پرجابجابکھری پڑی ہیں۔ داخلی سطح پرسیاہ فام اورسفیدفام کے درمیان خط امتیازنہ صرف صدیاں گذرجانے کے باوجودنہ صرف اپنی جگہ قائم ہے بلکہ امریکی عوام کے درمیان یہ ایسی خلیج ہے جوروزبروزگہری ہوتی چلی جارہی ہے ۔امریکہ میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے معروف ادارے سدرن پاورٹی لا کے مطابق وہ امریکہ میں ایسے امریکی شدت پسندوں پر نظر رکھے ہوئے ہے جونسل پرست ہیں اور امریکہ میں کافی متحرک ہیں اور یہ متعصب سفید فام قوم پرست ہیں۔’’دی آلٹرنٹیو رائٹ یا آلٹ رائٹ‘‘ کے نام سے معروف اشتعال انگیزی پھیلانے والے یہ افراد ایک گروہ کی شکل میں سامنے آچکے ہیں جنہیں سیاسی لحاظ سے دُرست اور سنجیدہ زبان کے استعمال سے نفرت ہے اور صدر ٹرمپ انہی کے محبوب لیڈر ہیں۔ اس گروہ کی حالیہ مقبولیت میں اضافے کی وجہ2016 ء میں امریکی صدارتی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تعصبانہ جذبات کا اظہار ہے۔آلٹ رائٹ کو میڈیا میں اس وقت مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے جولائی 2016 میں ریپبلکن پارٹی کے نامزد امیدوار کی حیثیت سے حریف ہیلری کلنٹن کی تصویر دادی ستارے سے مشابہ ایک چھ کونے والے ستارے کے ہمراہ ٹویٹ کی اور ساتھ یہ لکھا کہ’’اب تک کی سب سے زیادہ کرپٹ امیدوار‘‘ارچرڈ برٹرنڈ سپینسر جنہوں نے آلٹرنیٹو رائٹ اصطلاح کا استعمال شروع کیا تھا، کہتے ہیں کہ اس گروہ کا مقصدسفید فام افراد کی پہچان اور روایتی مغربی معاشرے کی بقاء ہے۔آزادی، آزادیِ اظہار اور دوسروں کی دل آزاری کرنے کا حق حاصل ہونا ان کا نصب العین ہے،جب کہ امریکہ میں ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ افراد نسل پرست ہیں۔یہ موؤمنٹ زیادہ تر تو آن لائن ہے اور اس کے ممبر باقاعدہ کسی ادارے کا حصہ نہیں اس لیے تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
اس گروہ کا مقصد ہے کہ ایسے سب لوگوں کو جن کے خلاف یہ تعصب رکھتے ہیں انہیں مساوی حقوق حاصل نہ ہوں۔ تاریخی طور پر اس گروہ کے ممبران ایسے لباس پہنا کرتے تھے جن سے اِن کے چہرے چھپ جاتے تھے اور وہ ان کپڑوں میں وہ ایسے لوگوں کی جانیں لے لیتے تھے جو جنوبی ریاستوں میں سفید فام قوم پرستی پر اعتراض کرتے تھے۔اس گروہ کے کچھ لوگ اپنے آپ کو 'سفید فام محب وطن عیسائی ادارے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ گروہ ہر امریکی ریاست میں موجود ہے اور کچھ اندازوں کے مطابق ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ایسے ہی گروہ سے وابستہ جنونیوں میں سے کوئی اٹھ کرسرعام فائرنگ کرکے لوگوں کی جانیں تلف کررہاہے ۔صرف پچھلے دوسال کاامریکی ریکارڈکھنگال لیجئے توپتہ چلتاہے کہ امریکہ میں نسل پرستی کی دھکتی آگ کی کیاصورتحال ہے ۔ سوموار 14 دسمبر 2015 کو ایک رپورٹ میں بتایاگیا کہ2015میںامریکہ میں پولیس اور سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں کے دوران ہلاک ہونے والے امریکی شہریوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے جن میں زیادہ تر سیاہ فام شامل ہیں۔رپورٹ میں بتایاگیاکہ 2015 میں پولیس کی جانب سے 47 افراد کو کرنٹ گن ،ٹیسرسے مارا گیا اور33 کو پولیس کی گاڑی سے کچلا گیا جب کہ 36 افراد پولیس حراست میں ہلاک ہوئے اور ایک شخص کو پولیس افسر نے لڑائی میں ماردیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ صرف کیلیفورنیا میں ہی پولیس کے ہاتھوں 183 افراد کو قتل ہوئے جب کہ ان واقعات میں مارے جانے والے 22 فیصد غیرمسلح تھے، ان اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں اس طرح 2015میںروزانہ 3.1 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیاکہ مرنے والوں میں سیاہ فام افراد کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ جمعہ 8 جولائی 2016کوایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایاگیاکہ امریکہ میں 123 سیاہ فام باشندے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔یعنی یہ سال کے صرف چھ ماہ کی رپورٹ تھی اگلے باقی چھ ماہ میں کتنامذیدخون خرابہ ہواہوگااس پربھی رپورٹ آئی ہوگی۔
سومواراور منگل3اکتوبر2017کی درمیانی رات کو امریکہ میںمینڈیلے بے ہوٹل اور کسی نو سے باہر منعقد ہونے والی شراب وشاب کی محفل’’ والین میوزک فیسٹیول ‘‘پرشب خون مارنے کے خوفناک واقعے نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ امریکی صحافی تھامس فریڈمین اس واقعے پر’’نیویارک ٹائمز‘‘میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں امریکا کی جدید تاریخ کے بدترین قتل عام کے واقعے پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔فریڈمین نے اپنے مضمون میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر فائرنگ کرنے والا حملہ آور مسلمان ہوتا اور اسرائیل وامریکہ کی پرداختہ داعش کا پیروکار ہوتا تو ایسی صورت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کانگریس کے قانون سازوں کا ردِ عمل کیا ہوتا ؟ انہوں نے اسلحہ رکھنے کے حوالے سے امریکی قانون سازی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جس کے سبب اس نوعیت کا قتل عام آسان ہو گیا۔فریڈمین نے مضمون کے آغازمیں سوال اٹھایا کہ’’اگر اسٹیفن پیڈوک مسلمان ہوتا اور فائرنگ کرنے سے قبل اللہ اکبر کا نعرہ لگاتا اور اگر ہمارے ہاتھ اس کی کوئی تصویر آ جاتی جس میں وہ ایک ہاتھ میں قرآن تھامے ہوتا اور دوسرے میں کوئی خود کار بندوق ‘‘اگر واقعتا یہ یہ سب کچھ اسی طرح ہو جاتا تو کوئی بھی ہم سے یہ نہیں کہتا کہ احتیاطی اقدامات کی باتیں کر کے حادثے کا شکار ہونے والے افراد کی اہانت نہ کی جائے اور اس اجتماعی قتل کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔فریڈمین لکھتاہے کہ ایسی صورت میں کانگریس میں ہنگامی اجلاس بلائے جاتے اور 9/11 کے حملوں کے بعد اندرون ملک دہشت گردی کے اس بدترین واقعے کو زیر بحث لایا جاتا۔ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہر گھنٹے بعد ٹوئیٹ سامنے آتی جس میں وہ کہتاکہ ’’میں نے آپ لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کر دیا تھا‘‘۔ جیسا کہ وہ یورپ میں ہونے والے ہر حملے کے چند منٹوں بعد کیا کرتاہے تا کہ ان کو سیاسی رنگ دیا جا سکے۔ اس کے بعد ہنگامی طور پر ایک تحقیقاتی کمیشن کے لیے مطالبات سامنے جو یہ معلوم کرتا کہ ہمیں کون سے نئے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے تا کہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں،بالآخر میں ہم حملہ آور کے اصل وطن کے خلاف تمام آپشنز سامنے رکھ دیتے۔فریڈمین حیرت کے ساتھ یہ استفسار کرتے ہیں کہ ’’اب جب کہ قاتل ذہنی طور پر پریشان ایک امریکی شہری ہے جو عسکری انداز کے ہتھیار سے لیس تھا، یہ ہتھیار اس نے قانونی طور پر خرید کر یا یوں کہیں کہ ہتھیار رکھنے سے متعلق ہمارے پاگل پن پر مبنی قوانین کے سبب بآسانی حاصل کر لیا تھا۔ ایسی صورت میں آگے کیا ہوگا ؟فریڈمین خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’صدر اور ریپبلکن پارٹی فوری طور پر یہ باور کرائے گی کہ کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد داعش تنظیم کے ہر حملے کے برعکس اس بات پر اصرار کیا جائے گا کہ اس واقعے کو ’’سیاسی رنگ‘‘نہ دیا جائے اور نہ یہ مطالبہ کیا جائے کہ آئینہ دیکھنے اور ہتھیاروں سے متعلق قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
فریڈمین پھر سوال کرتے ہیں کہ’’مشرق وسطیٰ میں داعش کے ہاتھوں قتل ہونے والے امریکیوں کی تعداد کتنی ہے 15 یا 20 ؟۔ فریڈمین نے امریکہ میں ہتھیار قبضے میں رکھنے سے متعلق لاگو قوانین پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو کسی امریکی کو ہتھیاروں کا ڈپو بنانے سے روک سکے جیسا کہ پیڈوک نے بھی بنا رکھا تھا۔ اس کے اسلحہ خانے میں 42 آتشی ہتھیار موجود تھے۔ ان میں 23 اس کے ہوٹل کے کمرے میں اور 19 اس کے گھر میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ ہزاروں گولیاں اور برقی آلات بھی تھے۔فریڈمین نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جب بات داعش کو کچلنے کی ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ صدر اور ان کی پوری جماعت ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم جب ہم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن سے اعتدال برتنے کے طالب ہوں تو صدر اور ان کے ساتھی روپوش ہو جاتے ہیں۔ اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کتنے بے قصور لوگ قاتل گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں کہ ان کی کانگریس کا ایک اہم رہ نما بیس بال کھیلنے کے دوران شدید زخمی ہو گیا۔ اسلحے کے تشدد میں کمی لانے کے لیے کسی بھی سیاسی حکمت عملی کو زیر بحث لانے کے واسطے موزوں وقت ہی نہیں ہے‘‘۔فریڈمین لکھتے ہیں کہ’’داعش تنظیم کے خطرے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا اور پھر ہمارے پس منظر میں موجود دیگر خطرات کو کم کرنے کے حوالے سے کچھ نہ کرنا.. یہ سراسر پاگل پن ہے۔ امریکی عوام یہ نہیں چاہتے کہ انہیں اپنے دفاع کے حق سے محروم کر دیا جائے مگر ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ کسی کو بھی یہ حق نہ حاصل ہو کہ وہ اپنے گھر یا ہوٹل کے کمرے میں ہتھیاروں کا ڈپو قائم کر لے اور اپنا اندر کا غصہ نکالنے کے لیے ان ہتھیاروں کو بے قصور امریکیوں پر استعمال کر ڈالے۔ البتہ مصیبت یہ ہے کہ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن نے ان بزدل قانون سازوں کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے‘‘۔فریڈمین نے مضمون کے اختتام پر امریکی معاشرے کو درپیش اس بحران کے حل کے طور پر تجویز پیش کی ہے کہ ’’طاقت اور اختیار حاصل کریں۔ اگر آپ بھی میری طرح بیزار ہو چکے ہیں تو پھر کسی کو نمائندہ بنا کر رجسٹرڈ کرائیں یا خود کو انتخابات میں نامزد کریں یا پھر کسی نامزد امیدوار کے لیے بھرپور عطیات فراہم کریں تا کہ ان بزدل قانون سازوں کی اکثریت کو تبدیل کیا جا سکے اور ہتھیاروں سے متعلق قابل قبول قوانین وضع کیے جائیں۔ یہ معاملہ قائل کرنے کا نہیں بلکہ حقیقی اختیارات حاصل کرنے سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے کے لیے ہمارے پاس پہلا موقع 2018 ء کے مڈ ٹرم انتخابات ہیں۔ اس سے پہلے کچھ کر لینے کی کوشش کو بھول جائیں ، خود کو نہ تھکائیں۔
بہرکیف امریکہ میں پیش آئے قتل و خون کے سنسنی خیز واقعے نے اپنے پیچھے کئی دروس چھوڑ دئے ہیںجن میں سے ایک یہ کہ اے امریکیوں جب تمہارے اپنے مرجائیںتوتمہیں ان لوگوں کے غم والم کااندازہ ہوجائے گاکہ جوتمہاری بمبارمنٹ اورتمہارے ڈرون حملے میں اس طرح مررہے ہیں کہ بچوں بوڑھوں اور عورتوں کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوکرہوامیں تحلیل ہوجاتے ہیں۔کاش امریکی میڈیا امریکی بمبارمنٹ میں مارے جانے والے مسلمانوں کے لاشوں کے ہوامیں تحلیل ہونے والے بوٹیوں کوایک دفعہ دکھا دے توشائد امریکی عوام ایک نفسیاتی شرمندگی کا شکار ہو جائیں گے! یہی وجہ ہے کہ جن امریکیوں نے عملی طور پر ڈرون کو کنٹرول کیا ہے ان میں سے کئی خود کشی کی کوشش کر چکے ہیں یا پھر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ امریکہ کایہ تازہ واقعہ یہ بھی بتلارہاہے کہ ہے کہ جومسلمانوں کورولائے اسے اپنے ہی ابنائے وطن رولائیں گے لیکن خیال رہے کہ یہ بات امریکہ کے پلے نہیں پڑسکتی کیونکہ وہ اس سچائی کودیکھنے کے لئے اندھااوراسے سمجھنے کے حوالے سے مکمل طورپربہراہے۔
���