تقریباً دس ماہ کی محنت کے بعد، امریکی صدر جوبائیڈن کی حکومت نے عالمی سطح پر اپنی دفاعی حکمتِ عملی کا خاکہ تیار کرلیا ہے اور اس کے مطابق آنے والے عرصے میں انڈو۔پیسفک خاص طور پر اس پالیسی کا محور رہے گا۔
امریکی محکمہ دفاع یعنی کہ پینٹاگن نے صدر جو بائیڈن کی عالمی ترجیحات کی عکاسی کرتے ہوئے آنے والے پانچ سالوں کے لیے امریکی فوجوں اور محکمہ دفاع کے لیے نئی ترجیحات پر مبنی اپنی Global Posture Review Report صدر کو پیش کردی ہے۔ ابھی تک اس رپورٹ کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں، تاہم Washington Postاور New York Times نے رپورٹ کے اقتباسات کو شائع کیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کی اسسٹنٹ سکریٹری کارلا مارلین نے GPRکی تفصیلات بتائے بغیر نامہ نگاروں کو واشنگٹن میں بتایا کہ اس رپورٹ کے ذریعے بائیڈن انتظامیہ نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ مستقبل میں دفاعی فیصلے امریکہ اپنے اتحادی ممالک کی صلاح و مشورے کے ساتھ کرے گا اور تمام فیصلوں میں لمبے عرصے میں حاصل کیے جانے والے اہداف شامل کیے جائیں گے۔ دراصل GPR کے ذریعہ بائیڈن انتظامیہ اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ جس طرح ٹرمپ کے دور میں فیصلے لیے جاتے تھے، جو کہ اکثر اتحادیوں اور اعلیٰ حکام کے ساتھ صلاح و مشورے کے بغیر لیے جاتے تھے اور اکثر کا اعلان سوشل میڈیا کے ذریعہ کیا جاتا تھا، جس کے نتیجے میں ان کے اعلیٰ حکام بھی اکثر ششدر رہ جاتے تھے، وہ طریقہ ختم کیا جائے اورآئندہ صلاح و مشورے اور جواب دہی کے اصولوں پر مبنی اہم فیصلے لیے جائیںگے۔ اپنے دورِ حکومت میں ٹرمپ نے کئی مرتبہ سیریا سے امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا اور ساتھ ہی جرمنی میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے کا بھی فیصلہ لیا جو کہ صدر بائیڈن نے صدر بنتے ہی پلٹ دیے تھے۔
GPRکے اہم نکات : محترمہ کارلا کے بقول GPRنے عالمی سطح پر امریکی فوج کی تعیناتی کی بابت کوئی سفارش نہیں کی ہے تاہم انڈو-پیسفک پر اب امریکہ کی زیادہ توجہ رہے گی اور آسٹریا اور گوام میں امریکی فوجی اڈوں اور تنصیبات میں نمایاں تبدیلیاں کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر GPRنے مختلف ممالک میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی اور ان کے پاس موجود اسلحہ کی بابت جائزہ لیا تھا اور اس ضمن میں GPRنے کسی بھی بڑی تبدیلی کی نشان دہی نہیں کی ہے بلکہ ایک طریقے سے GPRنے فوج کی عسکری طاقت اور اس کے استعمال کا تجزیہ کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ موجودہ علاقائی تناز عات کے ضمن میں GPRنے کوئی نئی سفارش نہیں کی ہے، البتہ رپورٹ میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ انڈو-پیسفک کے علاقے میں امریکی فوجی صلاحیت میں اضافے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں محکمہ دفاع خاطر خواہ تبدیلیاں عملی طور پر لائے گا۔ البتہ محترمہ کارلا نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اب مشرقِ وسطیٰ کی بجائے امریکی فوج کے لیے انڈو۔پیسفک کا علاقہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
رپورٹ کو عوام کی دسترس سے باہر رکھا گیا ہے اس لیے محترمہ کارلا کے بتائے ہوئے نکات سے اندازہ لگانے میں دشواری نہیں رہی کہ فی الوقت امریکہ اپنا سب سے بڑا دشمن کس ملک کو تصور کرتا ہے۔ GPRکے مطابق اب امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو اپنی زیادہ تر دفاعی صلاحیت انڈو-پیسفک پر مرکوز کرنا چاہیے اور اس کے لیے خاطر خواہ اقدامات اپنی فوجی صلاحیت کو مستحکم کرکے قائم کرنے چاہئیں۔
GPRمیں سفارش کی گئی ہے کہ امریکی فضائیہ کے طیارے باقاعدگی کے ساتھ آسٹریلیا کی فضائیہ کے ساتھ ہوائی مشقیں کریں گے۔ اس کے علاوہ پیسفک ایئر کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینتھ ولس باق کے بقول F-35, F-22, B-52 اور B-1میں سے جن طیاروں کے لیے آسٹریلیا اپنی رضامندی ظاہر کرے گا وہ آسٹریلیا میں تعینات کیے جاسکتے ہیں۔ F-22پانچویں نسل کے جدید ترین لڑاکو طیارے ہیں اور اپنے ہوا بازوں کو طیارے کے آس پاس کی پوری تصویر مہیا کرانے کے علاوہ جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ آسٹریلیا میں اپنی ہوائی بیسوں پر ہر طریقے کے جدید جنگی طیارے سلسلے وار طریقے سے وہاں تعینات کرتا رہے گا تاکہ ہوا باز پورے علاقے سے اچھی طرح سے واقف ہوجائیں۔ ساتھ ہی امریکہ اپنے بم بار جنگی طیارے بھی علاقے میں مامور کرتا رہے گا تاکہ چینی بحری جنگی جہازوں کے خلاف کارروائی کیے لیے وہ بھی تیار رہیں۔
چین کا ردِ عمل : GPRپر چین کا موقف واضح کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ذیاولی جی جان نے کہا کہ چین اس امریکی رپورٹ کی شدید مذمت کرتا ہے کیونکہ اس کے مطابق چین کو ایک کھلنائیک یا امن مخالف ملک قرار دیتے ہوئے امریکہ نے علاقائی سطح پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے اپنے دفاعی بجٹ اور دفاعی طاقت میں کئی گنا اضافے کا اشارہ دیا ہے۔ ترجمان نے امریکہ سے اپنی ’’سرد جنگ‘‘ والی ذہنیت کو ختم کرنے اور کسی تصوراتی دشمن کو اپنا حریف بنانے سے باز رہنے کی صلاح دی۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقائی طور پر چین اپنی سا لمیت، دفاعی ضروریات اور ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پوری طرح خود کفیل ہے اور امریکہ کی طرح اسے کسی اتحادی کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ کواڈ معاہدے اور آکس معاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے کندھے پر بندوں رکھ کر چین سے لڑنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ چین کے آس پاس کا سمندری علاقہ انڈو-پیسفک نہیں بلکہ ایشیا۔پیسفک ہے اور آکس معاہدے کے ذریعہ امریکہ اس علاقے میں جوہری لڑائی کی تیاری کررہا ہے۔ جس سے کہ علاقے کے امن و امان کو کافی خطرہ ہے اور اس علاقے کو جوہری اسلحے سے پاک رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ GPRکے ذریعہ صدر بائیڈن دفاعی شعبے میں اپنی سیاسی میراث ثبت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کا محور چین مخالف ہی رہے گا اور اس میں شاید وہ کامیاب بھی حاصل ناکرسکیں۔ اگر کوئی تیسری عالمی جنگ انڈو-پیسفک میں شروع ہوتی ہے تو اول تو وہ ایک جوہری جنگ ہوگی اور دوسرے اس کے دور رس اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ اس کے علاوہ فی الوقت امریکی معیشت موجودہ دور میں کسی بھی طریقے کی لمبی جنگ کا معاشی طور پر ساتھ نہیں دے سکتی ہے۔ بلکہ اگر ایسا کچھ رونما ہوتا ہے تو خدشہ یہی ہے کہ پھر عالمی پیمانے پر ایک آمر کمیونسٹ نظام قائم ہوسکتا ہے، جس میں کہ انفرادی آزادی سب سے پہلے ختم کی جائے گی اور اس کے بعد باقی عوام صرف محنت کش طبقے میں تبدیل کردیے جائیں گے، جو کہ اپنے آقاؤں کا ہر حکم ماننے کے لیے مجبور ہوں گے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔
ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com