معزز قارئین! انسان کبھی کبھار تعجب میں پڑ جاتا ہے جب وہ دیکھتاہے کہ خوش نصیب لوگ وہ کام کر جاتے ہیں جو ظاہر بین نظروں میں ان کی حداستطاعت سے بعیدہوتاہے لیکن جب انسان اپنا عزم وہمت سے کچھ اچھا کر نے کا من بنا لیتا ہے اور خلوص نیت سے اندر کے انسان کو سمجھاتا ہے کہ نہیں بھائی یہ نیک کام مجھ سے بھی ہوسکتا ہے، میں بھی معاشرتی فلاح و بہبود میں شریک ہوسکتا ہوں، مجھ سے بھی مفلوک الحال عوام کابھلا ہوسکتا ہے ، میں بھی کسی کے درد کا درماں ہوسکتا ہوں،میںبھی کسی ایک بے سہارا بچےکی پڑھائی لکھائی کا خرچہ اُٹھا سکتا ہوں تاکہ اُ س کی زندگی سنور جائے ، تو اللہ اس کے لئے راہیں کھول دیتا ہے ۔یہ سارے نیک جذبات اگر آپ کے قلب و ذہن میں جاگزیں ہیں تو سمجھنا چاہیے کہ آپ کے اندر ضمیر ابھی زندہ ہے جو آپ کو خوابِ غفلت سے اُٹھا کر رفاعِ عامہ کے کاموں میں لگنے کا اشارہ دے رہا ہے۔ ـ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا ضمیر سوجانے سے خود بخود یہ ذمہ داری غیروں کے سپر دہو جائے اور غیر لوگ بھلائی کے اس اہم کام میں تن من دھن سے لگ جائیں ۔ ا س کانتیجہ یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی مجبورو لا چار مسلمان اپنی روزی روٹی یا بنیادی ضروریاتِ زندگی کیلئے کہیں اپنے دین سے ہی نہ پھر جائے ۔اس کی سزا آخرت میں ہر متعلقہ فرد کو بھگتنا ہی پڑے گی ۔ بہر کیف اگر آپ صاحب ِ ثروت ہو کے بھی اپنے اردگرد ضرورت مند وں کی مطلوبہ خدمت کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتے کہ وہ غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوں تو جان لیجئے کہ آپ بھی اصل میں معاشرتی بگاڑ اور اخلاقی فساد کے ذمہ دار ہیں۔ یاد رکھئے اللہ مجبور وبے نوا لوگوں کی مدد کے لئے کسی نہ کسی نیک بندے کو ضرور بھیجے گا لیکن آپ اپنی انسانی ذمہ داری کے ساتھ خیانت کرنے سے اللہ کی ناراضگی اور پھٹکار کے مستحق بن جائیںگے ۔ا للہ کی عدالت میںناکامی کے بعد کوئی بھی عمل ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں دے سکتا ۔ لہٰذا ہم سب جہاں ایک خوش حال ،پُرامن اور باغیرت اسلامی معاشرہ میں غریب ونادارلوگوں کی دل جوئی اور امداد کے لئے سخاوت کریں ، وہاں ہمارے لئے کا میہابی ایسے سماج کے لئے دنیوی زندگی میں بھی کامیابی ہے اور آخرت میں بھی ۔ اس لئے ہمیںچاہیے کہ خاص کر گزشتہ اٹھائیس سال سے جو لوگ نامساعدحالات کے متاثرین ہیں ،اُن کے ساتھ بلا لحاظ مذہب وملت محض انسانیت کے ناطے ہر ممکن تعاون کریں ، جہاں انہیں مالی امداد کی ضرورت ہو ،وہاں ایثار کا ثبوت دیں ، جہاں وہ طبی سہولیات کے طلب گار ہوں وہاں انہیں یہ بہم پہنچائی جائیں ، جہاں یہ لوگ تعلیمی اخرجات پورا کر نے کے لائق نہ ہووہاں انہیں یہ ضروریات محض اللہ مکی رضا جوئی میں پوری کریں ۔ اس کام کے لئے ایمان کے بعد اعلیٰ کردار اور اخلاق کی ضرورت پڑتی ہے جو کسی درد دل والے انسان کو اللہ کی طرف سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ ـ اللہ ہمیں دوسروں کے کام آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ریسرچ اسکالر کشمیر یونیورسٹی