محمد عرفات وانی
دنیا روز بروز ترقی کی منازل طے کر رہی ہےاور ٹیکنالوجی کے اس انقلاب نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔ اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس، ٹیبلٹس، اسمارٹ واچز اور ٹیلی ویژن جیسی ایجادات نے جہاں ہمیں سہولتوں سے نوازا ہے، وہیں سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو ایک عالمی گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے۔ معلومات تک فوری رسائی، دنیا کے کسی بھی کونے سے رابطہ، تعلیمی مواد کا حصول اور کاروباری مواقع تک رسائی جیسے فوائد ناقابل تردید ہیں، مگر اس جدیدیت کی چمک دمک کے پیچھے کئی گہرے اندھیرے بھی پوشیدہ ہیں۔یہ الیکٹرانک ڈیوائسز اور سوشل میڈیا ہمیں سہولتیں فراہم کر رہے ہیں یا ہمیں حقیقت سے دور تنہائی کے دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔کیا ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں یا اپنی سماجی، ثقافتی اور ذاتی اقدار کو خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں؟ یہ میرا تحریر اسی سوال کا ایک گہرا اور جامع تجزیہ ہے۔
سوشل میڈیا بلاشبہ معلومات اور تفریح کا ایک مضبوط ذریعہ بن چکا ہے، لیکن اس کے بے جا استعمال نے انسانی زندگی میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ آج کا انسان متحرک کم اور مصروف زیادہ نظر آتا ہے۔ ہاتھوں میں موبائل، نظریں اسکرین پر جمی ہوئی، مگر حقیقت سے کوسوں دور۔۔۔۔!سوشل میڈیا کا سب سے بڑا نقصان ہمارا قیمتی وقت ہے، جو بے مقصد پوسٹس، غیر ضروری ویڈیوز، اور لاحاصل گفتگو میں برباد ہو رہا ہے۔ ہم حقیقی دنیا کی خوبصورتی، اہل خانہ کی محبت اور دوستوں کی رفاقت کو چھوڑ کر ایک مصنوعی دنیا میں مگن ہو چکے ہیں۔ ہم لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹس تو حاصل کر رہے ہیں، مگر اپنی اصل زندگی کے بنیادی مقاصد سے غافل ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ نظر آتا ہے وہ حقیقت کا محض ایک جھوٹا عکس ہوتا ہے۔ مصنوعی چمک دمک اور جھوٹی کامیابیوں کی کہانیاں ہمارے ذہنوں کو مایوسی اور احساسِ کمتری کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ لوگ اپنی اصل زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے دوسروں کی زندگیوں کے جھوٹے مظاہر سے متاثر ہو رہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں رات جلد سونے اور صبح جلد اٹھنے کی حکمت پوشیدہ ہے، مگر سوشل میڈیا کی دنیا نے ہماری راتوں کو بے کار تفریح کی نذرکر دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں نیند کی کمی، بے برکتی اور جسمانی و ذہنی پریشانیوں کا شکار بنا دیا ہے۔ہماری نمازیں قضا ہو رہی ہیں،اذکار بھول رہے ہیں اور قرآن کی تلاوت کو وقت دینا مشکل ہو چکا ہے۔ عبادات کی جگہ اسکرین نے لے لی ہے اور فلاح کی راہ دھندلا رہی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’قیامت کے دن کسی بھی انسان کے قدم نہیں ہلیں گے جب تک اس سے چار سوال نہ کر لیے جائیں، ان میں سے ایک سوال یہ ہوگا کہ اپنی زندگی کس کام میں گزاری۔‘‘ (ترمذی)
ذہنی اور جسمانی صحت پر اثرات: موبائل فون اور کمپیوٹر کا زیادہ استعمال ہماری آنکھوں، دماغ اور مجموعی صحت پر تباہ کن اثرات ڈال رہا ہے۔نیند کی کمی اور بے خوابی،آنکھوں کی کمزوری اور سر درد،ذہنی دباؤ اور مایوسی،سوشل انزوا (یعنی تنہائی کا شکار ہونا)عام ہورہا ہے۔آج کا انسان جسمانی طور پر زیادہ آرام دہ مگر ذہنی طور پر زیادہ تھکا ہوا ہے۔ ہماری یادداشت کمزور ہو رہی ہے، فیصلہ سازی کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے اور ہم لاشعوری طور پر ایک روبوٹ میں تبدیل ہو رہے ہیں جو صرف نوٹیفیکیشنز کے انتظار میں رہتا ہے۔پہلے خاندان کے افراد آپس میں وقت گزارتے تھے، اب ایک ہی گھر میں بیٹھے لوگ اپنے اپنے فون میں مصروف رہتے ہیں۔پہلے دوستوں کے ساتھ بیٹھکیں ہوتی تھیں، اب ورچوئل چیٹ میں ہی سب ختم ہو جاتا ہے۔پہلے ہم حقیقت میں خوش ہوتے تھے، اب صرف لائکس اور کمنٹس سے خوشی تلاش کرتے ہیں۔یہ سب ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم ترقی کر رہے ہیں یا ایک ڈیجیٹل دنیا میں قید ہو چکے ہیں؟
ہماری نسل کس طرف جا رہی ہے۔آج کی نسل کے لیے موبائل فون صرف ایک آلہ نہیں بلکہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ بچے کھیل کے میدانوں میں کم اور موبائل اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزار رہے ہیں۔پہلے بچے دوستوں کے ساتھ حقیقی کھیل کھیلتے تھے، اب وہ ویڈیو گیمز میں جیتنے کو اصل کامیابی سمجھنے لگے ہیں۔ اس کے نتیجے میںجسمانی صحت کمزور ہو رہی ہے۔بچوں کی ذہنی استعداد متاثر ہو رہی ہے۔حقیقی زندگی کی مہارتیں (Social Skills) ختم ہو رہی ہیں۔اس لئے ہمیں اس معاملے میں توازن پیدا کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ظاہر ہے کہ سوشل میڈیا کا محدود اور مثبت استعمال کریں۔ گھروالوں کے ساتھ وقت گزاریں اور اصل رشتوں کو ترجیح دیں۔ رات کو سونے سے پہلے موبائل کا استعمال ترک کریں۔ مطالعے اور مثبت سرگرمیوں کو اپنائیں اور دینی عبادات اور حقیقی زندگی کے مقاصد کو اہمیت دیں۔
قرآن کریم میں فرمایا گیا:’’اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔‘‘ اس لئے ہمیں جاگنے کی ضرورت ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے ہمیں کئی سہولتیں دی ہیں، لیکن ہمیں ان کے صحیح اور محدود استعمال کو یقینی بنانا ہوگا۔ سوشل میڈیا کو اپنی زندگی پر مکمل قابض ہونے نہ دیں بلکہ اسے ایک مددگار کے طور پر رکھیں، نہ کہ ’’مالک‘‘ کے طور پر۔اگر ہم نے اپنی تہذیب، ثقافت اور اصل رشتوں کی اہمیت کو نہ سمجھا تو ہمارا انجام بھی بہت بُرا ہوگا۔اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں توازن پیدا کریں، ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم ترقی کے نام پر اپنی اصل پہچان کھو دیں گے۔
رابطہ۔9622881110
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔