’’ الہا م سے پہلے‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  
نام کتاب: الہام سے پہلے،    شاعر: اشرف عادل
صفحات:122،اشاعت:2021
ناشر:ایجو کیشنل پبلشنگ ہائود نئی دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقول آل احمد سرورؔ
  غزل میں   ذات بھی ہے کائنات بھی ہے
  ہمارے بات بھی ہے تمہارے بات بھی ہے
اس بات میں شک کئی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ اردو غزل کا دامن بہت وسیع ہے، اتنا و سیع ہے کہ شاعر انسانی ذات اور کائنات کو ایک ہی شعر میں قید کر سکتا ہے۔اب جہاں تک جموں وکشمیر کے ادبی دبستان کا تعلق ہے یہاں کے شعراء نے بھی اردو ادب کی اس مقبول ترین صنف’’غزل‘‘ کے دامن کوزینت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا، جن میں اشرف عادل بھی خاص اہمیت کا حامل  ہے ۔’’الہام سے پہلے‘‘ اشرف عادل کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو کہ ۶۰ غزلوں پر مبنی ہے جو انھوں نے آن لائن مشاعروں میں شرکت کر کے کہی ہیں۔انھوں نے غزل کے علاوہ ڈرامے بھی لکھیں ۔دبستان کشمیر میں اشرف عادل ایک محترم شاعر کا نام ہیں۔ شاعری کی بیشترا صناف کو چھوڑ کر اشرف عادل نے غزل کو اپنی پلکوں پہ سجائے ر کھا ہے۔ان کی شاعری میں جذبات اور احساسات کے چراغ روشن ہیں۔انہوں نے سماج کی گود میں مسلسل رہ کر وہاں سے موصول ہوئے اجتماعی تجربات اور مشاہد ات کو سادگی سے شعری پیکر میں ڈھال کر قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔انھوں نے معاصردور کے حالات و صدمات پر بھی نشتر چلائے ہیں ۔انسان کے درد کو اپنا درد محسوس کر کے تیرگی کے خلاف آواز بھی اٹھا ئی ہے           ؎
  جہاں عشق میں ہلچل مچانے  آیا ہوں
  نگاہ یار    میں دنیا بسانے  آیا ہوں
  مجھے خبر ہے اندھیروں  کا ہے سفر مشکل
  تمہاری رات میں مشعل جانے آیا ہوں
اشرف عادل ؔنے ارض و سما کی حقیقتوں اور بیرونی کرب کو چن چن کر شعروں میں پرویا ہے،وہی تیز رفتارزندگی کی تلخی کو بھی کریدنے کی کامیب کوشش کی ہے۔گردو پیش کے ماحول میں سانس لے کر انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا آفتاب جلد طلوع ہونے والا ہے کیونکہ اپنے ماحول کی شکست وریخت ،رسہ کشی اور انسانیت کو لہو لہان دیکھ کر بے چین ہوجاتے ہیں۔جب وہ معاشرے میں مکرو فریب ، انسانیت کی ناقدری ،دھوکہ اور جھوٹ کی پذیرائی کو دیکھتے ہیں تو اس طر ح اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں ۔    ؎
  وقت    بے   وقت محبت میں سیاست کرنا
  تم نے     سیکھا ہے فقط دل کی تجارت کرنا
  روشنی  جن کے اندھیروں سے کرے یارانہ
  ان چراغوں  سے میرے دوست بعاوت کرتا
اشرف عادل ؔکی شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری میں امید کے تارے زندگی کو روشن کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ہے ۔آپ موسموں کے خوف سے فرار حاصل نہیں کرنا چاہتے بلکہ تیزآندھی میں بھی چراغ جلانے کا عزم رکھتے ہیں۔انسانی زندگی کا بیشتر حصہ حادثات پر مشتمل ہے۔کچھ حادثات ایسے ہوتے ہیں کہ جس کا اثر انسان کے دل و دماغ پر اس طرح گھر کرتے ہیں کہ زندگی کا حسن بگڑ جاتا ہے اور یہ تمام صورت حال ان کی شاعری میں بھی صاف طور پر دکھائی دیتی ہے ۔اشرف عادل ؔکے یہاں خلوص،ہمدردی اور انسانیت کی بے وقت موت ان کے لئے ایک دردناک حادثہ ہے اور انھوں نے اپنے اس درد کو شعری پیکر میں ڈھال کر پیش کیا ۔  ؎
   موتی تو چشم تر میں سنبھالے کہاں گئے
   وہ آہ  و زاری  اور وہ نالے  کہاں گئے
  بھرے رہے ہیں زہر خیالات میں فقط
  جو سانپ  آستین میں پالے کہاں گئے
  پھولوں  کے شہر سے وہ مسافر کہاں آگیا
  ہاتھوں کے زخم پائوں کے چھالے کہاں گئے
اشرف عادلؔ کا کلام کئی سطحوں پر قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتا ۔ان کے کلام کی پہلی قرآت کرنے کے بعد ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اشرف عادل ؔنے ہمارے وجود میں اتر کر ہمارے درد و کرب کی ترجمانی کی ہے۔ایک ایسی دنیا سے واسطہ پڑتا ہے جس میں ہمارے درد کا دریا بہتا ہوا نظر آتا ہے۔ درد کی وہ قوت جس میں تمام حواس شامل ہوتے ہیں۔ان کے یہاں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں اور یہی درد ایک نئی فکر کو جنم دیتی ہے، جہاں پہنچ کر پڑھنے والا کھوجاتا ہے اور اس کے ذہن ودل میں کلام کے ساتھ ساتھ درد وغم کی  تمام صورتیں بھی ابھرنے لگتی ہیں۔اشرف عادلؔ کا شاعرانہ شعور فطری اور پختہ ہے۔معاصر حالات کے تمام اسرار و رموز سے مزین ان کی غزلوں پر جدیدیت کا اثر نمایاں ہے۔اس کے باوجود ان کی شاعرری خالص روایت پسنی ، قدامت پرستی اور خواب و خیال کی رنگین دنیا پر مبنی نہیں ہے،بلکہ نئی تہذیب کی نئی زندگی کے نشیب فراز اور رشتوں کی پامالی کی کھل کر عکاسی بھی کرتی ہے ۔اگر غور کریں تو عہد حاضر کی المناک صورت حال کی عکاسی کر تے ہوئے ان کے یہ شعر قاری کو اس نتیجے پر پہنچا دیتے ہیں۔؎
  ہر اک مکیں کو ہے دعوی یہاں خدائی کا
  ہجوم  دل  سے   نکل آیا آشنائی کا
  بٹھک رہا ہے وہی شخص وشت و صحر ا میں
  غرور  جس کو   تھا ہر وقت رہنمائی کا
 شاعر کا تو کمال یہی ہے کہ ہرخیال کو خوبصورت الفاظ کا ایسا لباس پہنانا ہے کہ معنی اور مفاہیم کی ایک دلکش دنیا آباد ہو جاتی ہے۔اضطراب اور مشکل حالات میں بھی اپنے جذبات پر قابو رکھنا اور زخمی آنکھوں سے اس کٹھن حالات میں چین و سکون کے خواب دیکھنا آسان نہیں ہوتا ، اس کے بر عکس اشرف عادلؔ کی شاعری ہمیں راحت اور چین و سکون کی دنیا سے آشنا کرتی ہے۔ویرانی اور دہشت کی آغوش سے نکال کر ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں زندگی لہراتی بل کھاتی ،جہاںپرندے جھومتے اور جہاں ہر چیز حسین،دلکش اور دلفریب نظر آتی ہے ۔ان کی شاعری میں محبت ،شرافت اور صداقت اپنے جوبن پر ہے۔   ؎  
   نفرتوں کی کوئی آواز  نہ پہنچیں  مجھ تک
  گیت الفت کے محبت   کے سنانا مجھکو
   میرے عیوب  کی تشہیر نہ ہونے دینا
  اپنی رحمت کے حجابوں میں چھپانا  مجھکو
  رب مرے نام نہ انسان کا بدنام کروں
  آدمیت کے لبادے  میں چھپانا مجھکو
اشرف عادلؔ کے اس شعری مجموعہ ’’ الہام سے پہلے ‘‘ میں زبان صاف ستھری اور نکھری ہوئی دکھائی دیتی ہے، جہاں جذبات و احساسات کی زینت مسخ نہیں ہوتی بلکہ زیادہ چمک دار ہے۔اشرف عادل ؔنے اپنے قلم کی آنکھیں کھلی رکھی ہیں۔انہوں نے اپنے دورکے دردوکرب ، غم و خوشی  اور انسانی زندگی کی بے شمار الجھنوں کو شعری کالباس عطا کیا ۔ان کے کئی طنز آمیز اشعار عہد حاضر کی شیطانیت کو آشکار کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کرنے کا درس دیتے ہیں۔ان کی شاعری نا آسودو رندگی  اوراخلاقی قدروںکا المیہ پیش کرتی ہے اور ساتھ ہی انسانی بے حسی  اور بے غیرتی کی سچی تصویر بھی ظاہر کرتی ہے۔انسانی زندگی سے وا بستہ تمام مسائل کی عکاسی بھی اس مجموعے سے ہوتی ہے۔امید ہے یہ کتاب ادبی حلقوں میں پسندیدگی کی نظروں سے دیکھی جائے گی۔
  (رعناواری سرینگر۔8899037492)