عام طور پر جب جبر و ظلم بڑھ جاتا ہے اور ظالم کی عمر لمبی ہوجاتی ہے تو دنیا پریشان ہوجاتی ہے۔ مظلوم کے اندر مایوسی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تسلی دیتا ہے کہ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ ظالموں کو ڈھیل دینے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کی پکڑ نہیں ہوگی۔ ان پر عذاب شدید نہیں آئے گا۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ظالم قوموں پر سخت ترین عذاب آیا ہے اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔ ہر ظالم کے ساتھ اللہ کا عتاب و عذاب یکساں ہوتا ہے۔ قرآن عظیم میں اللہ کا فرمان ہے :
’’اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جاسکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کیلئے دردناک عذاب ہے۔ البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور در گزر کرے تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے‘‘۔ (سورہ الشوریٰ:39-42)
’’یہ بھی اہل ایمان کی بہترین صفات میں سے ہے۔ وہ ظالموں اور جباروں کیلئے نرم چارہ نہیں ہوتے۔ ان کی نرم خوئی اور عفو و درگزر کی عادت کمزوری کی بنا پر نہیں ہوتی۔ انھیں بھکشوؤں اور راہبوں کی طرح مسکین بن کر رہنا نہیں سکھایا گیا ہے۔ ان کی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ جب غالب مغلوب کے قصور معاف کر دیں، جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے در گزر کریں اور جب کسی زیر دست یا کمزور آدمی سے کوئی خطا سرزد ہوجائے تو اس سے چشم پوشی کر جائیں، لیکن جب کوئی طاقت ور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں اور اس کے دانت کھٹے کر دیں۔ مومن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا۔ اس قسم کے لوگوں کیلئے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے۔
یہ پہلا اصولی قاعدہ ہے جسے بدلہ لینے میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بدلے کی جائز حد یہ ہے کہ جتنی برائی کسی کے ساتھ کی گئی ہو، اتنی ہی برائی وہ اس کے ساتھ کرے، اس سے زیادہ برائی کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔
یہ دوسرا قاعدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لینا اگرچہ جائز ہے لیکن جہاں معاف کر دینا اصلاح کا موجب ہوسکتا ہو وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کے بجائے معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے، اور چونکہ یہ معافی انسان اپنے نفس پر جبر کرکے دیتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اجر ہمارے ذمہ ہے، کیونکہ تم نے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے۔
اس تنبیہ میں بدلہ لینے کے متعلق ایک تیسرے قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے ظلم کا انتقام لیتے لیتے خود ظالم نہیں بن جانا چاہئے۔ ایک برائی کے بدلے میں اس سے بڑھ کر برائی کر گزرنا جائز نہیں ہے، مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو ایک تھپڑ مارتے تو وہ اسے ایک ہی تھپڑ مار سکتا ہے۔ لات گھونسوں کی اس پر بارش نہیں کرسکتا۔ اسی طرح گناہ کے بدلہ گناہ کی صورت میں لینا درست نہیں ہے۔ مثلاً کسی شخص کے بیٹے کو اگر کسی ظالم نے قتل کیا ہے تو اس کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ جاکر اس کے بیٹے کو قتل کر دے یا کسی شخص کی بہن یا بیٹی کو اگر کسی کمینہ انسان نے خراب کیا ہے تو اس کیلئے یہ حلال نہیں ہوجائے گا کہ وہ اس کی بیٹی یا بہن سے زنا کرے۔
واضح رہے کہ ان آیات میں اہل ایمان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ اس وقت عملاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحابؓ کی زندگیوں میں موجود تھیں اور کفار مکہ اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے در اصل کفار کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی بسر کرنے کا جو سر و سامان پاکر تم آپے سے باہر ہوئے جاتے ہو، اصل دولت وہ نہیں ہے بلکہ اصل دولت یہ اخلاق اوراوصاف ہیں جو قرآن کی رہنمائی قبول کرکے تمہارے ہی معاشرے کے ان مومنوںنے اپنے اندر پیدا کئے ہیں‘‘۔(تفہیم القرآن)
موبائل۔ 9831439068
ای میل۔[email protected]
���������