اللہ سے کرے دور جو تعلیم وہ فتنہ

مغربی تعلیم کی روح بلند مقاصد سے خالی ہے، اس کا نصب االعین صرف معاش کا حصول ہے اور یہ نوجوانوں کو پیٹ کا غلام بنا کر اسے دنیاوی لذتوں میں اُلجھا دیتی ہے، اس طر ح بلند مقاصد سے وہ بالکل عاری ہو جاتے ہیں۔ یہ تعلیم نوجوانوں کو اپنی قومی تاریخ و روایات سے بیگانہ کرکے مغربی طرز معاشرت رفتار و گرفتا ر اور طرزِ حیات کا دلدادہ بنا دیتی ہے۔ دنیا جھوٹے معیار زندگی، باطل نظریات اور گمراہ اقدار کی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیر ہ کر دیتی ہے ،اس کے نتائج میں فطری حریت، دلیری، شجاعت اور بلند پروازی ہمارے کردار سے ناپید ہوجاتی ہےاور ہمارے درمیان احساس کمتری اور بزدلی فروغ پاکر ملت کا شیرازہ تباہ و برباد کر دیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے جنّت کا وعدہ ہے، اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ (سورۃ توبہ۔آئت۔111)
بندہ اپنی چیز جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کی اطاعت گذاری سے مالک الملک خوش ہو کر اس پر اپنا اور فضل کرتا ہے سبحان اللہ کتنی زبردست اور گراں قیمت پروردگار کیسی حقیر چیز پر دیتا ہے۔ دراصل ہر مسلمان اللہ سے یہ سودا کر چکا ہے۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اسے پورا کرے یا یونہی اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے دنیا سے اٹھ جائے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لیلۃ العقبہ میں بیعت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے لئے اور اپنے لئے جو چاہیں شرط منوالیں۔ آپ ﷺنے فرمایا میں اپنے رب کے لئے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا اور اپنے لئے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہو، میری بھی حفاظت کرنا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا جب ہم یونہی کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا جنت! یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگا ،واللہ اس سودے میں تو ہم بہت ہی نفع میں رہیں گے۔ بس اب پختہ بات ہے نہ ہم اسے توڑیں گے نہ توڑنے کی درخواست کریں گے، پس یہ آیت نازل ہوئی، یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، نہ اس کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم مارے جائیں گے نہ اللہ کے دشمنوں پر وار کرنے میں انہیں تامل ہوتا ہے، مرتے ہیں اور مارتے ہیں۔ ایسوں کے لئے یقینا جنت واجب ہے۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہو جہاد کے لئے، رسولوں کی سچائی مان کر، اسے یا تو فوت کر کے بہشت بریں میں اللہ تبارک و تعالیٰ لے جاتا ہے یا پورے پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس اسے لوٹاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے ضروری کر لی ہے اور اپنے رسولوں پر اپنی بہترین کتابوں میں نازل بھی فرمائی ہے۔ حضرت موسیٰؑپر اتری ہوئی تورات میں، حضرت عیسیٰ ؑپر اتری ہوئی انجیل میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اُترے ہوئے قرآن میں اللہ کا یہ وعدہ موجود ہے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین۔ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ اللہ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ نہ اس سے زیادہ سچائی کسی کی باتوں میں ہوتی ہے۔ جس نے اس خرید و فروخت کو پورا کیا اس کے لئے خوشی ہے اور مبارکباد ہے، وہ کامیاب ہے اور جنتوں کی ابدی نعمتوں کا مالک ہے۔ ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا،جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ تیرا رب بڑے کرم والا ہے،
جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا،جس نے انسان کو وہ سکھا یا جسے وہ نہیں جانتا تھا‘‘(العلق، 96: 1 – 5)
یہ وہ پانچ آیات مقدسہ ہیں جن میں علم کا پیغام دے کر نازل کیا گیا۔ گویا انسان کچھ نہیں جانتا تھا اسے علم عطا کیا گیا، وہ جاننے لگا، اسے اندھیروں سے اجالوں کے دامن میں لایا گیا۔ اسے روشنی عطا کی گئی، علم و آگہی روشنی کے سفر کا نام ہے۔ مذکورہ بالا آیات کے ذریعہ رب کائنات نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے نسل آدم کو باقاعدہ ایک سلسلہ تعلیم سے منسلک کر دیا۔ ذہن انسانی میں شعور و آگہی کے ان گنت چراغ روشن کئے۔ گویا تاریخ اسلام میں سب سے پہلا اسکول غار حرا کی خلوتوں میں قائم ہوا۔ اس اسکول کے واحد طالب علم ہونے کا شرف سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوا۔امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: ''لوگوں کو علم کی کھانے پینے سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ کھانے پینے کی ضرورت دن میں ایک یا دو مرتبہ ہوتی ہے، لیکن علم کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے''۔
انسان اور انسانی دل کے لیے حُبّ ِالٰہی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے اور یہ صرف علم سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ علم کی اہمیت کا اندازہ قرآن کریم کی ان آیات مبارکہ سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام بتلائے، پھر انہی چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم (اپنی بات میں)سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتلاؤ (البقرہ: 31)اللہ تعالی نے انبیائے کرام، رسولوں اور دیگر جسے چاہا انہیں علم کے لیے مختص فرمایا، چنانچہ فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ کو علم رکھنے والے بچے یعنی اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری دی۔وہ جس وقت بھر پور جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا(یوسف: 22) یہ آیت سیدنا یوسف علیہ السلام کے بارے میں ہے۔میں حفاظت کرنے والا اور جاننے والا ہوں۔(یوسف: 55)اسی فضیلت کو یوسف علیہ السلام نے اور واضح کیا۔ وہ جس وقت کڑیل جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا (القصص: 14) یہ آیت موسی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی۔اور ہم نے ہر ایک کو علم و حکمت سے نوازا۔(الأنبیاء: 79) سیدنا داؤد علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی۔عیسیٰؑ! میرے اس احسان کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا، جب میں نے روح القدس سے تمہاری مدد کی کہ تو گہوارے میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے یکساں کلام کرتا تھاو اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات اور انجیل سکھلائی (المائدہ: 110)
سیدنا خضر کے پاس اللہ تعالی کا دیا ہوا ایسا علم تھا جو کسی اور کے پاس نہیں تھا ،اسی فضیلت کے باعث اولو العزم پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر بھی سفر کر کے ان کے پاس جا پہنچتے ہیں:(موسی اور ان کے ساتھی)نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر)کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا، اور اپنے ہاں سے علم سکھایا تھا (الکھف: 65)
 جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ (سلیمان  علیہ السلام سے)کہنے لگا کہ آپ کے پلک جھپکانے سے بھی پہلے میں اس (تختِ سبا) کو آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں۔(النمل: 40)سلیمان  علیہ السلام کے فوجیوں میں بارے میں جس کے پاس زیادہ علم تھا۔
(ماخوذ۔۔۔تفسیر ابن کثیر،تفسیرجلالین،تفہیم القرآن۔۔نہج البلاغہ۔ادارئہ دائرہ المعارف ،مضمون۔ڈاکٹر جسٹس عبدالمحسن ابن محمد قاسم ، مولانامحمدسمیع الحق جدون و دیگر مضامین سے)…………………………(ختم شد)
فون نمبر۔9968012976