سرینگر//پارٹی میں اندرونی بغاوت سے نمٹنے پر گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی اورسابق پارٹی رہنمامحمدالطاف بخاری کے درمیان اختلافات اُس حد تک بڑھ گئے تھے، جہاں سے واپسی کاکوئی امکان نہ تھا،جسکااختتام سنیچر کو سابق وزیرخزانہ کے پارٹی سے اخراج پر منتج ہوا۔پارٹی کے قریبی حلقوں، جو اِن سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہیں،کے مطابق بخاری نے محبوبہ مفتی پر واضح کیا تھا کہ وہ پیپلزڈیموکریٹک پارٹی میں موجودہ بحران کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پارٹی کی صدارت چھوڑدیں۔گزشتہ ماہ پیرزادہ محمدحسین اور بشارت بخاری کو پارٹی سے نکالنے کے بعد محمدالطاف بخاری تیسرے رہنما ہیں، جنہیں پیپلزڈیموکریٹک پارٹی سے خارج کیاگیا۔گزشتہ سال ماہ جولائی میں پارٹی کے پانچ رہنما محبوبہ مفتی کیخلاف کھلے طورمیدان میں آگئے تھے اور انہوں نے پہلے ہی پارٹی سے استعفیٰ دیا ہے اور اگر اطلاعات پر یقین کیاجائے تو مزید لوگ پی ڈی پی سے دامن چھڑانے کیلئے پرتول رہے ہیں۔بخاری نے پارٹی کی حالیہ ایک میٹنگ میں بتایاکہ اگر محبوبہ مفتی گزشتہ بیس برس کے دوران پارٹی کو بنانے کاسہرااپنے سر باندھ لیتی ہیں ،تو انہیں پارٹی کو متحد رکھنے اور ممبران ،جن میں کچھ سینئر ارکان بھی شامل ہیں، کو بحران کے وقت پارٹی نہ چھوڑ دینے میں ناکامی بھی قبول کرلینی چاہیے۔ذرائع کے مطابق درحقیقت بخاری نے مطالبہ کیا تھا کہ محبوبہ مفتی کو بحیثیت وزیراعلیٰ اور پارٹی صدر کے طور ناکام ہونے کیلئے پارٹی کی صدارت چھوڑنی چاہیے اور اپنے نائب عبدالرحمن ویری کو پارٹی صدر بنانا چاہیے ۔سنیچرکو الطاف احمدبخاری کو پارٹی سے خارج کرنے کے بعد پی ڈی پی نے ایک تفصیلی پریس بیان جاری کیاجس میں اُن کے پارٹی سے اخراج کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بخاری پارٹی اورریاستی مفادات کی قیمت پر اپنے سیاسی عزائم پوراکرنا چاہتے تھے۔بخاری نے نازک موقع پرپارٹی میں بغاوت کو ہوادے کرقیادت کی جس سے ہماری مخلوط سرکار کے ایجنڈاآف الائنس کو عملانے کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا۔اب جبکہ الطاف بخاری نے کہاکہ وہ پارٹی کے فیصلے سے خود کوایک بڑے بوجھ سے آزاد محسوس کررہے ہیں ،انہوں نے پارٹی سے اخراج کے بارے میں بتائی گئی وجوہات کو قابل مباحثہ قرار دیا ہے ۔ایک سینئر لیڈر نے تاہم کہاکہ دسمبر تک دونوں طرف سے معاملات آہستہ سے آگے بڑھ رہے تھے ،دراصل بخاری نے پارٹی کی طرف سے حال ہی میں تین اہم پارٹیوں پی ڈی پی،نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو ایک جگہ جمع کیا تھا تاکہ حکومت سازی مشترکہ طور کی جاسکے ۔پارٹی لیڈر کے مطابق دسمبر2018سے شروع ہوئے اختلافات جنوری19تک جاری رہے اور بالآخر بخاری کو باہر کردیا گیا ۔انہوں نے کہاکہ الطاف بخاری نے 12دسمبر 2018کو منعقد ہوئی اس میٹنگ میں بھی شرکت کی جس میں مظفر حسین بیگ کو اتفاق رائے سے پارٹی کا سرپرست اعلی مقررکیا گیا تھا ۔اسی میٹنگ کے دوران محبوبہ نے کہاتھا کہ جو افراد پارٹی چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں وہ جاسکتے ہیں۔ایک اور سینئر لیڈر نے بتایا کہ الطاف بخاری نے محبوبہ مفتی کے ایک نزدیکی رشتہ دار کو پارٹی قیادت سے اپنے اختلافات کی وجوہات بتائی تھیں ۔اب تک سید الطاف بخاری نے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو تھرڈمیں شمولیت کے خواہاں ہیں ،نہ ہی کسی اور پارٹی میں شامل ہونگے، اسکے بجائے وہ آزاد انہ حیثیت میں اسمبلی انتخابات لڑیں گے ، اورکسی پاور پالیٹکس کا حصہ نہیں بنیں گے ۔