حال ہی میںا لجزائر میں پانچ ہفتوں تک جاری رہنے والے شدید احتجاج کے بعد صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ نے بالآخر استعفیٰ دے دیا ۔ وہ مسلسل چارمرتبہ صدر منتخب ہوئے اور نصف صدی سے زیادہ عرصہ سیاست میں سرگرم رہے۔الجزائر کے ریاستی ادارے الجزائر پریس سروس کے مطابق صدارتی دفتر نے بیان جاری کیاہے کہ الجزائر کی آئینی کونسل نے عبدالعزیز کے صدارت سے الگ ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔بیان میں مزید کہاگیا کہ عبدالعزیز کاکہا کہ جمہوریہ کے صدر کے طور پر میرے عہدے کا اختتام آج سے ہی ہوگا، اُمید ہے کہ میرے فیصلے سے ملک میں امن قائم ہوگا اور شہری الجزائر کو بہتر مستقبل کی جانب لے جانے کے قابل ہوجائیں گے۔ صدر کے استعفے کے بعد سینکڑوں الجزائری دارالحکومت کی سڑکوں پر نکل آئے اور قومی پرچم لہرانے لگے، شہری گاڑیوں کے قافلوں کی شکل میں شہر کے مرکز میں جمع ہوئے، لوگ اللہ اکبر کے نعرے بلند کررہے تھے اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر ’’گیم اوور‘‘ لکھا تھا۔ ریاستی ٹی وی پر روایتی لباس پہنے کمزور نظر آنے والے عبدالعزیز کو اپنا استعفیٰ آئینی کونسل کے سربراہ کو پیش کرتا ہوا دکھایا گیا، اس موقع پر چیئرمین سینیٹ عبدالقادر بنسالہ بھی موجود تھے، جو نوے دن کے لیے انتخابات ہونے تک ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ ریاستی میڈیاپر جاری خط میں عبدالعزیز کاکہنا تھا کہ ’’ میں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ میں حالیہ تنازعہ کا خاتمہ چاہتا تھا‘‘۔۲۰۱۳ء میں فالج ہونے کے بعد سے عبدالعزیز منظر سے مکمل طور پر غائب ہوچکے تھے اور صرف خطوط کے ذریعے ہی عوام سے رابطہ کرتے تھے۔ بہرحال عبدالعزیز کا استعفیٰ الجزائر کی تاریخ کے ایک اہم باب کا اختتام ہے۔عبدالعزیز کے پانچویں مرتبہ صدارتی انتخابات لڑنے کے اعلان کے خلاف لاکھوں شہریوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیاتھا اور عبدالعزیز کے استعفے کا مطالبہ کیاتھا۔ابتدا میں عبدالعزیز نے سخت عوامی دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے انتخابات کے لیے پانچویں بار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے تھے،بعد میں انہوں نے ۱۱ ؍مارچ کو الیکشن لڑنے سے دستبرداری کا اعلان کیا اورانتخابات ملتوی کردیے گئے۔یکم اپریل کو ریاست کے اعلیٰ حکام نے اعلان کیا کہ عبدالعزیز ۲۸؍اپریل کو اپنی صدارتی مدت کے اختتام پر اقتدار سے الگ ہوجائیں گے۔ ۲۰۱۳ میں فالج کے حملے کے بعد عبدالعزیز ۸۰ دن فرانس میں زیر علاج رہے تھے، اس کے بعد سے ہی اپنی موت کی افواہوں اور ملک چلانے کی صلاحیت کے بارے میں خدشات کے باوجود وہ صدارتی فرائض انجام دے رہے تھے۔ جسمانی طور پر کمزور، وہیل چیئرپر براجمان اوربات کرنے میں مشکل پیش آنے کے باوجودعبدالعزیز نے حالیہ برسوں میں ریاستی ٹی وی چینلوں کے سامنے بیرون ملک سے آئے وزرائے خارجہ کا استقبال کرکے طاقت ور ہونے کا فریب تشکیل دیا۔ عبدالعزیز سے ملنے والے ان کے اتحادی اور سفارت کار مسلسل دعویٰ کرتے رہے کہ وہ ذہنی طور پر صحت مند ہیں لیکن چند ہفتوں کے مظاہروں نے صورت حال مکمل طور پر تبدیل کردی۔ بظاہر ریاست کی جانب سے محفوظ راستہ اختیار کرتے ہوئے آرمی چیف احمد گیدھ سلیہ نے ۲۶ ؍مارچ کو عبدالعزیز کی برطرفی کا مطالبہ کردیا، جو ان کی اقتدار سے علیحدگی میں جلدی کی وجہ بنا۔
عبدالعزیز مارچ ۱۹۳۷ میں مراکش کے شہر وجدہ میں مغربی الجزائر سے تعلق رکھنے والے خاندان میں پیداہوئے، انہوں نے۱۹۵۶ء میں نیشنل لبریشن آرمی میں شمولیت اختیار کرلی، جس نے۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۲ء تک فرانس کے خلاف جنگ لڑی۔ عبدالعزیز کو ملک کا طویل ترین عرصے (۲۰ برس) تک صدر رہنے کے ساتھ ساتھ کم عمر ترین وزیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ۱۹۶۲ء میں عبدالعزیز کو ۲۵ برس کی عمر میں کھیل، سیاحت اور نوجوانوں کے امور کا وزیر مقرر کیا گیا تھا۔ فرانس سے آزادی کے بعد ملک کے پہلے صدر احمد بن بیلا نے محض ایک برس بعد ۱۹۶۳ء میں عبدالعزیز کو ملک کا وزیر خارجہ مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ بے شمار عزائم رکھنے والے نوجوان سیاست دان کو یقین تھا کہ وہ چیئرمین انقلابی کونسل الجزائر اور ملک کے دوسرے صدر ہیواری بولڈیین کی جگہ لے سکتا ہے۔ ۱۹۷۸ء میں ہیواری کی موت کے بعد عبدالعزیز کا خیال تھا کہ وہ صدارت پر قبضہ کرسکتا ہے مگر فوج نے ان کا راستہ روک دیا، بدعنوانی کے الزامات پر عبدالعزیز نے ملک چھوڑ دیا اور کئی برس متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ میں گزار دیے،جس کے بعد۱۹۸۹ء میں فوج نے ان کو دوبارہ سے نیشنل لبریشن فرنٹ میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ عبدالعزیز نے ۱۹۹۴ء میں فوج کی جانب سے نگران حکومت کی قیادت کرنے کی درخواست مسترد کردی اور تین برس زبردست خانہ جنگی جاری رہی۔ ۱۹۹۹ء میں صدر لیامین زروال کے غیر متوقع استعفے کے بعد عبدالعزیز نے فوج کے حمایت یافتہ اُمیدوار کے طور پر صدارتی انتخابات میں حصہ لیا۔ ان انتخابات میں تمام مخالف اُمیدوار دھاندلی کا الزام لگا کر انتخابی عمل سے الگ ہوگئے اور عبدالعزیز انتخابات لڑنے والے واحد امیدوار رہ گئے، جس کے بعد وہ ۷۴ فیصد ووٹ حاصل کرکے ملک کے پانچویں صدر بن گئے۔
عبدالعزیز کے لیے وقت بہت اچھا ثابت ہوا۔ ۲۰۰۲ء میں الجزائر میں جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہوگیا، غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق الجزائر میں ۹۰ کی دہائی کی خونی خانہ جنگی میں دولاکھ افراد مارے گئے تھے ۔ بہرحال ستمبر ۲۰۰۵ء کے ریفرنڈم کے ذریعے امن معاہدے اور قومی مفاہمتی عمل شروع کرکے صدر عبدالعزیز نے خود کو امن قائم کرنے والے کے طور پر منوالیا۔ الجزائر یونیورسٹی میں شعبہ سماجی تبدیلیوں کے ڈائریکٹر نورالدین حاکیکی کاکہنا ہے :’’قومی مفاہمتی عمل کی کامیابی کا انحصار سیاسی اور معاشی اصلاحات پر تھاکیوں کہ صدر جانتے تھے کہ الجزائر کا سماجی ضمیر مکمل طور پر سماجی امن سے جڑا ہوا ہے‘‘۔ عبدالعزیز نے تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے زمانے میں ہی طاقت حاصل کی۔ الجزائر نے ۲۰۰۰ء کی دہائی میں تیل کی فروخت سے اربوں ڈالر کمائے، جس کے ذریعے ملک کا قرضہ بروقت ادا کرنا ممکن ہوا، زرمبادلہ کے ذخائر ۲۴۰؍ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور سب سے اہم یہ کہ سماجی بہبود پر بے تحاشا رقم خرچ کی گئی، اشیائے ضروریہ پر رعایت دی گئی، نئے کام کے آغاز کے لیے مدد فراہم کی گئی، تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا تاکہ سماجی امن حاصل کیا جاسکے۔ ۲۰۱۴ء میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے بعد بھی صدر کی ان پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اقتدار میں آنے کے سولہ برس بعد عبدالعزیز نے اپنے وعدے پورے کردیے، سیاست میں فوج کا کردار ختم کرکے ایک سول ریاست کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے الجزائر کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے انٹیلی جنس اور سیکورٹی ڈپارٹمنٹ کو تحلیل کردیا اور اس انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ جنرل توفیق کو ریٹائرڈ کرکے گھر بھیج دیا۔ ایک پُراسرار شخصیت جس کی صرف دو تصاویر موجود ہیں، توفیق نے ۲۵ ؍برس انٹیلی جنس ادارے کی قیادت کی، توفیق کو سیاسی اور فوجی دہرا نظام حکومت رکھنے والے ملک کے دوسرے سربراہ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ ابتدا سے ہی عبدالعزیز کے دماغ میں ایک ہی خیال تھا کہ نظام کو تبدیل کرنا ہے۔ اس بارے میں سابق صدر کے قریبی ساتھی نے بتایا:’’ عبدالعزیز نے بتایاتھاکہ کوئی بھی نظام کی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتاہے،سیاسی نظام کو تبدیل کرکے عبدالعزیز نے ان فوجیوں سے بدلہ لیا جن کی وجہ سے۱۹۷۰ میں وہ ملک کا سربراہ بننے سے رہ گیاتھااور وہی فوجی دو دہائی بعد اس کو واپس لائے۔۔۔ آج نزرار، بلخیر اور توتی (۹۰ کی دہائی کے فوجی جنرلز) جیسے لوگ جاچکے ہیں اور ان جیسا دوبارہ کوئی نہیں آئے گا، سیاست دان پیدا کرنے کی فوجی مشین بند کردی گئی، احمد گیدھ سلیہ الجزائر آرمی کے آخری افسر ہیں جو چیف آف اسٹاف کے عہدے تک پہنچے، اس کے بعد آنے والے محض تکنیکی ماہرین ہوں گے۔ عبدالعزیز کا شکریہ، تاریخی طور پر اقتدار میں رہنے والی پوری نسل کو نکال باہر کیاگیا ہے‘‘۔۱۹۹۹ء کی ابتدا میں عبدالعزیز نے اپنے آئینی اختیارات بحال کرنے کا اعلان کیا، جو ایک دہائی قبل۱۹۸۹ء میں ختم کردیے گئے تھے۔ ایک دہائی قبل حکمراں جماعت نے زبردست احتجاج سے ڈر کر ملک پر کئی جماعتوں کی حکومت کو تسلیم کرلیا تھا، لیکن فوج نے خانہ جنگی کے آغاز کے بعد اس سیاسی عمل کا خاتمہ کردیا تھا۔ ۱۹۹۹ء میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے ہی عبدالعزیز نے ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے سیاسی اقدامات کا آغاز کردیا تھا۔ یہ اقدامات طویل مدتی نتائج کے حامل تھے۔ ۲۰۰۱ء میں پولیس اسٹیشن میں طلبہ کی موت کے بعد ہونے والے فسادات ہوں یا فوجی جنرلز اور سوسائٹی ہر کوئی عبدالعزیز کا راستہ روکنے میں ناکام رہا۔ عوام پر بڑے پیمانے پر اخراجات کرنے کی وجہ سے ایک دہائی قبل مشرق وسطیٰ میں آنے والی تبدیلی کی لہر سے الجزائر محفوظ رہا۔ سیاسی امور کے ماہر محمد حیمومی کا کہنا ہے کہ ’’۲۰۱۱ء میں مشرق وسطیٰ میں آنے والے انقلاب کی لہر روکنے کے لیے حکومت نے عوام پر اخراجات میں ۲۵ فیصد اضافہ کردیا، جس کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھ کر ملک کے جی ڈ ی پی کے ۳۴ فیصد تک پہنچ گیا، لیکن گزشتہ دس برس کے دوران تیل سے ہونے والی آمدنی کی مسلسل تقسیم کافی ثابت نہیں ہوئی، حالانکہ رقم بہت بڑی تھی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، (۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۹ء تک ۲۰۰؍ارب ڈالر اور ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۴ء تک ۳۸۰؍ارب ڈالر تقسیم ہوئے) تاکہ ریاست کو ہر قسم کے احتجاج اور فسادات سے بچایا جاسکے۔ حسینی زیرو کی اور حسیبہ میلوک نامی صحافیوں نے ۲۰۱۰ء میں ایک کتاب’’ ہمارے دوست بوتفلیقہ۔۔۔ خوابوں کی ریاست سے بدمعاش ریاست تک‘‘ لکھی۔ عبدالعزیز بوتفلیقہ اکتوبر ۱۹۸۸ء کے اقدام کو ختم کرنے کا عزم رکھتے تھے، جب ملک میں کثیر جماعتی نظام آیا تھا۔ صحافیوں نے لکھا کہ عبدالعزیز ایک بار پھر ایک آمرانہ ریاست بحال کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ پل کر جوان ہوئے ہیں۔ ان کی نظر میں ناپختہ شہریوں کے ملک میں آزاد پریس، خودمختار یونین اور اپوزیشن جماعتوں کو مکمل آزادی دینا ناقابل قبول ہے۔ ۲۰۰۴ء میں انہوں نے ۹۹ء۸۸ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، آئین میں ترمیم کے ذریعے تیسری دفعہ صدارتی انتخابات لڑنے کا حق حاصل کرنے کے بعد ۲۰۰۹ء میں انہوں نے ۲۴ء۹۰ فیصد ووٹ حاصل کیے اور ۲۰۱۴ء میں انہوں نے ۵ء۸۱ فیصد ووٹ حاصل کیے۔عبدالعزیز کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ نظام کے تراشے ہوئے ایک بادشاہ سے زیادہ کچھ نہیں۔ عبدالعزیز کو جاننے والے ایک سرکاری افسر کا کہتے ہیںکہ ’’لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ طاقت اور اقتدار کی دنیا میں رہے ہیں، عبدالعزیز کو یقین تھا کہ طاقت برقرار رکھنے کے لیے چالاک اور ذہین ہونا ضروری ہے،سابق صدر کے سیاسی مخالفین کو یہ بات چھپانی نہیں چاہیے کہ وہ ماضی کے آدمی تھے، جس نے اکیسوی صدی کے الجزائر کو تعمیر کیا‘‘۔