افغان فورسز نے طالبان کے زیرنگرانی چلنے والی ’منشیات کی لیبارٹریوں‘ پر فضائی حملوں میں وسعت پیدا کر دی ہے۔ طالبان کا زیادہ تر مالی دارومدار منشیات خصوصا? ہیروئن کی اسمگلنگ سے ہونے والی آمدن پر ہے۔فغانستان ہیروئن کی پیدوار کے اعتبار سے دنیا کا سب سے اہم ملک کہلاتا ہے جب کہ افغان فورسز کی جانب سے ملک کے متعدد علاقوں میں منشیات کے مراکز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔افغان حکام نے ایک نئی حکمت عملی کے تحت افیون کی فصلوں کو نشانہ بنانے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ گزشتہ برس افغانستان میں افیون کی پیداوار میں 87 فیصد اضافہ ہوا تھا۔امریکی حکام کے مطابق افیون کے ان کھیتوں میں سے زیادہ تر طالبان کے زیرقبضہ علاقوں میں واقع ہیں اور طالبان ہی منشیات کی تجارت کی بھی نگرانی کرتے ہیں۔ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی کے بعد ملک کے متعدد علاقوں میں طالبان نے اپنا اثرورسوخ بڑھایا ہے اور اب افیون کی فصلوں کے حامل علاقوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔امریکی فورسز نے افغانستان کی فوج کے ساتھ مل کر مغربی صوبے فرح اور نمروز میں طالبان کے زیرقبضہ گیارہ ایسے مقامات کو نشانہ بنایا ہے، جہاں منشیات کی پیداوار جاری تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مغربی افغان علاقوں میں اس انداز کے فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ ان کارروائیوں کا مقصد طالبان کی آمدن کے مرکزی ذرائع کو نقصان پہنچانا ہے۔افیون کی سب سے زیادہ پیداوار افغانستان میں ہوتی ہے۔ گزشتہ برس قریب 2 لاکھ 10 ہزار ہیکٹر رقبے پر افیون کاشت کی گئی۔ افیون کی کْل پیداوار کا قریب 90 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔تاہم میجرجنرل جیمز ہیکر کے مطابق، ’’طالبان کی آمدن کے ذرائع کو نقصان پہنچا کر ہم ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی صلاحیت کو بھی دھچکا پہنچا رہے ہیں۔‘‘افغانستان اور امریکی فورسز کے مطابق منشیات کی پروسیسنگ اور ٹیکسیشن کے نتیجے میں طالبان کو قریب دو سو ملین ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔نومبر میں شروع کی گئی اس مہم کے نتیجے میں ہلمند میں ایسے 75 حملے کیے گئے تھے۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے مطابق اس مہم کے نتیجے میں اب تک کسی عام شہری ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔ فوجی بیان میں کہا گیا ہے کہ ان حملوں کے نیتجے میں ممکنہ طور پر ایسی فصلوں کے مقامات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی، مگر ایسے فصلیں جہاں پر بھی نمودار ہوں گی، وہاں حملے کیے جائیں گے۔