افغانستان| دو پرانے حریف پھر آمنے سامنے

گزشتہ ڈھائی مہینے سے کابل پر طالبان کے قبضے اورطالبان کی جانب سے افغانستان کو ایک اسلامی امارات بنانے کے اعلان کے بعد سے عالمی اور علاقائی سطح دونوں پر افغانستان کو ایک مستحکم ملک بنانے اور وہاں کے عوام کو راحت کی سانس دلانے کی بابت مختلف کوششیں مسلسل جارہی ہیں لیکن ابھی تک دونوں سطح پر کسی کو بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہی خود طالبان حکومت ایک عبوری کابینہ کے اعلان کے علاوہ کچھ اور کرپانے میں کامیاب نظر آرہی ہے۔ گفت و شنید کا سلسلہ مختلف ممالک سیاسی اور سماجی رہنماؤں اور حکام کے درمیان جاری ہے لیکن ابھی تک کہیں سے بھی کوئی مثبت یا عملی پیش رفت کی کوئی خبر نہیں ہے۔
افغانستان کی صورت حال کا جائزہ لینے اور طالبان حکومت کے ساتھ کن نقوش پر تعاون کیا جاسکتا ہے، ان پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں آٹھ ملکوں کے قومی دفاعی مشیروں(NSAs)کی ایک میٹنگ 10 اور 11 نومبر کو منعقد کی گئی۔ میٹنگ میں روس، ایران، قزاقستان، تاجکستان، ترکمانستان، اربیکستان، کرگیزاستان کے NSAsنے شرکت کی۔
نئی دہلی اجلاس کی جو بات سب سے عجیب نظر آتی ہے وہ اس میں کسی بھی افغانی حکام کو شامل نہ کیا جانا۔ اس نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے ہندوستانی حکام نے اجلاس سے پہلے جاری کیے گئے بیانات میں اس کی توجیہ پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس اجلاس میں دہشت گردی اور انتہاپسند نظریات، منشیات اور افغانستان سے آنے والے مہاجرین کی بابت گفت و شنید کی جائے گی اور مزید یہ کہ ان مسائل سے علاقائی ممالک کیسے نپٹیں یہ طے کیا جائے گا۔ اسی لیے اس میں کسی افغانی مندوب کی شرکت کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور مزید یہ کہ اجلاس میں شامل کوئی بھی ملک طالبان حکومت کو ایک باضابطہ حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کی جلدی میں نہیں ہے۔ جو بھی ملک نئی دہلی میں جمع ہوئے ہیں وہ کابل میں پاکستان کے رول کے تئیں مشکوک ہیں کیونکہ ان کے مطابق موجودہ حالات میں اس کی خفیہ ایجنسی یعنی ISIافغانستان کے اندرونی معاملات میں کافی منفی کردار ادا کررہی ہے۔
10؍نومبر کی میٹنگ کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ میں شرکت کرنے والے تمام ملکوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی اور علاقائی سطح پر افغانستان کو ایک مستحکم ملک بنانے کے لیے مجموعی کوششیں جاری رہنی چاہئیں اور اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ افغانستان میں موجود تمام سیاسی اور نسلی گروپوں کی شمولیت کے ساتھ مستحکم حکومت قائم ہو جو کہ افغانستان میں دہشت گردی  اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مؤثر اقدامات لے سکے اور اس کے خاتمے کے لیے کوشاں رہے اور افغانی عوام کو بغیر کسی رکاوٹ کے تمام ضروری اشیاء جلد از جلد مہیا کرانے کے انتظامات کیے جانے چاہئیں تاکہ آنے والے موسمِ سرما میں انھیں کھانے پینے کی اشیاء آسانی سے دستیاب ہوں۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کی تربیت، منصوبہ بندی اور اس کے لیے مالی امداد مہیا کرانے کے ذریعوں پر مکمل کنٹرول اور ان کا خاتمہ کرنے کے لیے تمام کوششیں کرنی چاہئیں، جس سے کے افغانستان میں پرامن، محفوظ اور مستحکم ماحول قائم ہوسکے۔ اس کے علاوہ افغانستان کی خود مختاری، قومی اتحاد اور علاقائی سا  لمیت اور حفاظت کے علاوہ اس عمل کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کوئی دوسرا ملک وہاں کی اندرونی صورت حال میں دخل اندازی کی کوشش نہ کرے۔ اس آخری نقطہ کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ نئی دہلی اجلاس میں موجود زیادہ تر مندوبین نے پاکستان کی ISIاور افغانستان میں مبینہ طور پر موجود چند ناپسندیدہ گروپوں کے درمیان تعلقات اور دونوں ملکوں کی سرحد پر موجود دیگر سیاسی اور دہشت پسند گروپوں کی موجودگی کی بھی نشان دہی کی۔
اس میٹنگ کے ساتھ وابستہ عجیب اعمال کی فہرست میں اس وقت ایک اور اضافہ دیکھنے میں آیا جب روس کے وفد نے میٹنگ کے اختتام کے کچھ وقت بعد میٹنگ میں ہونے والی گفت و شنید اور لیے گئے فیصلوں پر اپنا ایک الگ بیان جاری کیا۔ روسی بیان دہلی اعلامیہ کے پانچ نقاط پر لفظی طور پرالگ موقف اختیار کرتا نظر آیا، لیکن یہ اختلاف بنیادی نہیں بلکہ روسی سیاسی فکر کی عکاسی کرتا ہے، روسی بیان میں عورتوں، بچوں اور دیگر افغانی عوام سے متعلق ان کے حقوق پر اور سیاسی اختیارات پر اپنی فکر کو ظاہر کرتے ہوئے انھیں بنیادی قرارنہیں دیا اور نا ہی اس بات کی تصدیق کی کہ حکومت ان حقوق کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے پابند ہے، جو کہ روس میں ان اختیارات اور حقوق پر روسی کمیونسٹ پارٹی اور اس کے بعد نافذ ہونے والے سیاسی نظام میں یکساں طور پر نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں، اس کے علاوہ روسی بیان میں اقوامِ متحدہ کے افغانستان میں دوبارہ سیاسی نظام کو قائم کرنے کے لیے افغانستان کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے زور دیا۔ تاہم دہلی اعلامیہ میں اگلی میٹنگ 2022میں منعقد کرنے کی بات صاف طور پر کہی گئی ہے لیکن روسی بیان نے اس ضمن میں وقت کی میعاد کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ اس کا کہنا ہے کہ ایسا اجلاس وقتِ ضرورت منعقد کیا جاتا رہنا چاہیے۔
طالبان کی جانب سے نئی دہلی میٹنگ کا خیر مقدم کیا گیا ہے، طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس میٹنگ کو ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں اور افغان حکومت،دہلی میں جمع NSAsکی اس بات سے پوری طرح متعلق ہے کہ افغانستانی عوام کے لیے راحت رسانی کا کام اولین ترجیح ہونا چاہیے اور اس میں کسی بھی ملک کو کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ افغان عوام اپنے ملک میں امن اور استحکام قائم کرنے کے خواہاں ہیں کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے انھوںنے اپنے ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے ہوئے دیکھے ہیں۔ ہم چاہتے ہیںکہ افغانستان ایک مرتبہ پھر معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ہوسکے جس سے کہ وہاں کے عوام کو راحت  ملے اور ہمیں امید ہے کہ نئی دہلی میٹنگ میں ان سب نقاط پر بات چیت ہوئی ہے اور ہم پوری طرح اس سے متفق ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم ہر اس کوشش کی حمایت کریں گے جو کہ افغان عوام کو خطِ افلاس سے اوپر لانے میں معاون ثابت ہو۔ اندازے کے مطابق تقریباً 80فیصد افغانی خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی دوران کابل میں افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ گو کہ اس میٹنگ میں افغان نمائندے موجود نہیں ہیں تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ یہ میٹنگ افغانستان کے مفاد کے لیے منعقد کی گئی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ علاقائی ملک ایسی تدابیر کی بابت تبادلہ خیال کریں جس سے کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم ہوسکے اور ساتھ ہی اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
نئی دہلی میٹنگ میں شامل NSAsسے وزیر اعظم مودی نے بھی ملاقات کی اور ان سے کہا کہ ہمیں اپنی کوششیں چار نکات پر مرکوز کرنی چاہئیں جس سے کہ جلد از جلد افغانستان میں حالات معمول پر آسکیں۔ ان کے بقول ہمیں افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم کرنے کے لیے کوشاں ہونا چاہیے جس میں کہ ہر نسل اور فرقے کے نمائندے شامل ہوں، افغانستان کی سرزمین کو دہشت گرد تنظیموں کے زیرِ استعمال نہ آنے دینے کے لیے اس ضمن میں Zero Toleranceپالیسی اختیار کرنا چاہیے اور افغانستان سے منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ روکنی چاہیے اور افغان عوام کے لیے راحت رسانی کی کوششیں تیز تر کرنے کے علاوہ اسے اولین ترجیح بنانا چاہیے۔
دریں اثنا پاکستان نے نئی دہلی اجلاس میں شرکت نہ کرکے خود اپنے ملک میں 11؍نومبر کو اسلام آباد میں ایک دوسرا اجلاس منعقد کیا، جسے Troika Plusکا نام دیا گیا ہے اور جس میں روس، چین اور امریکہ کے افغانستان کے لیے مامور کیے گئے خصوصی ایلچیوں نے شرکت کی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس درمیان یعنی 10 سے 12 نومبر تک افغانستان کی عبوری حکومت میں وزیر خارجہ امیر خاں متقی اسلام آباد میں موجود تھے، تاہم انھوں نے T+میٹنگ میں شرک نہیں کی بلکہ تینوں خصوصی ایلچیوں اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
پاکستانی وزیر شاہ محمود نے میٹنگ کے افتتاحی اجلاس میں کہا کہ اس وقت افغانستان معاشی بحران کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر مغربی ممالک کی جانب سے جو افغانی اثاثے منجمد کیے گئے ہیں انھیں افغان حکومت کو واپس لوٹائے تاکہ وہ عوامی پروگرام اور دیگر کام کاج ایک منصوبہ بند طریقے سے شروع کرسکے اور ساتھ ہی افغانی عوام کے لیے راحت رسانی کے پروگراموں کو جلد از جلد شروع کیا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید معاشی پابندیاں مجموعی طور پر طالبان حکومت کو بہتر طور پر کام کرنے اور عوامی پروگرام شروع کرنے میں دقتیں حائل کرسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں کو جلد از جلد ختم کرنا مغربی ممالک کے حق میں بھی کارآمد ثابت ہوگا۔
اس میٹنگ میں امریکہ کی نمائندگی کرنے والے تھامس ویسٹ جنھیں کہ زلمے خلیل زاد کے استعفے کے بعد ان کی جگہ مقرر کیا گیا ہے انھوں نے اسلام آباد آنے سے قبل برسلس میں EUاور ناٹو کے حکام سے بھی افغانستان کے تعلق سے ملاقاتیں کیں۔ مسٹر ویسٹ کے مطابق دونوں تنظیموں کے حکام نے واضح الفاظ میں افغانستان کو امداد مہیا کرانے کے لیے اپنی رضا مندی ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں امریکہ کے اتحادی ممالک کو امریکہ کے ساتھ مل کر اس ضمن میں کام کرنا چاہیے کیونکہ امریکہ اکیلا یہ سب کچھ نہیں کرسکتا ہے۔ ان کے اس بیان سے یہی تاثر قائم ہوتا ہے کہ نفسیاتی طور پر تمام مغربی ممالک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں چاہے سیاسی اور عملی طور پر وہ اسے تسلیم کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ مسٹر ویسٹ اسلام آباد کے بعد ماسکو اور نئی دہلی بھی تشریف لے گئے اور وہاں کے حکام سے افغانستان مسئلے پر بات چیت کی۔
افغانستان کے پورے قضیے میں جو بات سب سے زیادہ اہم اور عجیب محسوس ہوتی ہے، وہ ہے کہ آخر کار کیا وجہ ہے کہ عالمی سطح پر ہر بڑا ملک جیسے کہ روس، امریکہ، چین اور برطانیہ اور اس کے علاوہ علاقائی ملک جیسے کہ پاکستان، ہندوستان، ایران، ترکمانستان، کرگزستان وغیرہ کیوں کرافغانستان میں اتنی زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں؟
محتاط اندازوں کے مطابق افغانستان کے پاس معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں جس میں سونا، پیلٹینم، چاندی، تانبہ، لوہا، کرومائیٹ، لیتھیم، یورینیم اور المونیم شامل ہیں۔ اگر طالبان ملک میں ایک پرامن ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر وہ ان معدنیات کی مزید دریافت اور اس کی کان کنی اور کاروباری تجارت کے ذریعہ افغانستان کی ترقی کا ایک نیا باب شروع کرسکتے ہیں ساتھ ہی دنیا کو ایک مکمل اسلامی حکومت کا نمونہ بھی پیش کرنے میں کامیاب ہوسکتے  ہیں۔
تو درحقیقت ہر ملک کی دلچسپی افغانستان کی تعمیر نو میں اس لیے بھی ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ معدنیات سے متعلق اس کی کان کنی اور کاروبار کے شعبے میں اس کی بھی شمولیت ہو تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اپنے ملک کو پہنچاسکے اور تھوڑا بہت پیسہ افغانستان کی تعمیر نو میں خرچ کرسکے۔اس کے علاوہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی دلچسپی افغانستان میں موجود لیتھیم اور المونیم کے ذخائر سے ہے کیونکہ آج کے دور میں جس طریقے سے مغربی ممالک پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کاروں کو ختم کرکے بیٹری اور بجلی سے چلنے والی کاروں کو زیادہ فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں، اور ان کاروں کو تیز رفتار اور کارآمد بنانے کے لیے اس میں جو بیٹریاں نصب کی جاتی ہیں اس میں لیتھیم اور المونیم کا ایک بڑا حصہ شامل ہوتا ہے۔ عالمی پیمانے پر صرف تین ملکوں میں یعنی کہ افغانستان، زمبابوے اور آسٹریلیا میں لیتھیم کے اتنے بڑے ذخائر موجود ہیں جو آنے والے وقت میں اس کی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں۔
اگر طالبان دنیا کے سامنے ایک مستحکم اور پائیدار حکومت پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اپنی اندرونی لڑائیوں پر قابو پالیتے ہیں تو یہی امریکہ جو کہ 20سال کے بعد پورے ملک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کے بعد وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوا ہے تو یہی امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اپنی خجالت کم کرنے کے لیے اور اپنی شبیہ صاف کرنے کے لیے افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے ڈیولپمنٹ کے نام پر اسے مالی امداد دینے کے لیے مجبور ہوجائیں گے اور اگر طالبان اس امداد کو بغیر کسی بدعنوانی کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر کوئی بھی طاقت انھیں حکومت سے بے دخل نہیں کرپائے گی۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com