افسانچے

 درخواست

 وہ بہت سخی دل اور نیک ہیں۔پورے ربیع الاول کے دوران ضرورت مندوں میں ضرورت کی اشیاء تقسیم کرتے ہیں۔جمعہ کو خاص طور پر ان کے گھر میں غریبوںاورمحتاجوں کی قطار لگتی ہے۔کل میں بھی اس قطار میں تھا۔مجھے سے آگے کئی افراد تھے۔ایک بزرگ عورت نے آٹا مانگا۔اسے گیہوں کا پیکٹ دیا گیا۔ایک بے بس شخص نے بچوں کے لئے دوائیاں مانگ لیں۔اسے راشن کے پیکٹ کے ساتھ کئی دوائیاں بھی دے دی گئیں۔۔۔۔میری باری آئی تو اس نے پوچھا ؟کیا چاہئیے۔۔۔میں نے ہاتھ جوڑ کردرخواست کی سوموار سے ہمارے امتحانات شروع ہونے والے۔۔۔’’بس گھنٹے دو گھنٹے کو بجلی چائیے۔۔۔‘‘

استاد

میں نے ایک ناول’’ بلیک فارسٹ‘‘ لکھا۔میں بہت ہی خوش تھا کہ میرا ناول مقبول ہوگا۔کاغذ،چھپائی ،سرورق بھی دلکش اور جاذب نظر تھا۔
میں نے سب کچھ کیا لیکن ناول فلاپ ہوگیا۔۔۔میں نے استاد سے کہا ؟ ’’بے شک ناول کی کہانی کمزور تھی لیکن باقی سب چیزیں  توموجود تھی‘‘۔۔لیکن پھر یہ ناول کیوں ناکامیاب ہوگیا۔۔استاد  مجھے بیک ویل ریسٹورنٹ لے گیا۔وہاں دو بلیک فارسٹ پیک کروائے۔میں خوبصورت پیکنگ دیکھ کر متاثر ہوا۔۔لیکن بد مزہ بلیک فارسٹ کا ایک بھی چمچہ نہیں لے سکا۔۔استاد نے میرا منہ بنا ہوا دیکھا تو کہہ۔۔
’’بات سمجھ میں آئی؟‘‘۔۔پیکنگ نہیں۔۔۔’’بلیک فارسٹ ‘‘۔اچھا بنائو۔۔!

پی۔ایچ ۔ڈی

’’رسالے پڑھتے ہو۔۔میں نے پوچھا‘‘
’’جی۔ہاں۔۔‘‘اس نے یوں کہا جیسے خود بھی یقین نہ ہو۔۔آج کس تحریک یا رجحان کے تحت فکشن لکھا جارہا ہے۔۔
اس کے چہرے پر اداسی نظر آئی۔۔
’’فکشن پڑھتے ہو؟۔۔‘‘
’’جی ۔ہاں۔۔‘‘
’’منٹو کو کیوں عدالت کی اور رخ کرنا پڑا‘‘
اس نے سر جھکا لیا۔۔۔
’’شاعری پڑھتے ہو؟۔۔‘‘
’’جی ۔ہاں۔۔‘‘
یہ کس کا شعر ہے؟
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدر ہو توساتھ  رکھوں  نوحہ گر کو میں
’’وہ پی۔ایچ ۔ڈی اسکولر منہ لٹکا ئے وہاںسے رخصت ہو گیا۔۔اسے بھرتی کر لیا جائے۔وہاں سے فون آیانیزسفارش نامہ بھی ای میل کیا  ہے۔۔۔میں سوچ کر مسکرایا کہ جب تک ایسے  پی۔ایچ ۔ڈی اسکولر بھرتی ہوتے رہیں گے۔۔ہماری دانش گاہوںکا کیا حال ہوگا؟۔۔۔‘‘
……………………….
رابطہ: رعناواری سرینگر   فون نمبر:9697330636