اعتدال کا راستہ درست اور مفید ہے

بے شک کسی بھی کام یا کسی بھی بات میں اعتدال کا راستہ اپنانا درست اور مفید ہوتا ہے اور بہترین کام بھی وہی ہے جو اعتدال کے ساتھ کیا جائے،کیونکہ انسان پر جو افتاد پڑتی ہے وہ اکثر حالات میں اُسی کی بے اعتدالیوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔اس لئے لازم ہے کہ حدودِ اعتدال سے تجاوز نہکیا جائے اور افراط و رتفریط سے الگ رہ کر اعتدال کو اپنا شیوہ بنائا جائے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ دو مہینوں سےوادیٔ کشمیر میں شادیوں کا موسم چل رہا ہےاور کافی تعداد میں شادی بیاہ کی تقریبات ہورہی ہیںجو تقریباًنومبر کے مہینے تک جاری رہتی ہیں۔ زیادہ تر شادیوں میںیہی دیکھا جارہا ہے کہ بہت سے ایسے اخراجات ہورہے ہیں جو انتہائی غیر ضروری ہیںاور کسی بھی معاملے میں اعتدال رکھنے کی کوشش نہیں ہورہی ہے،بلکہ وہ اخراجات کئے جا رہے ہیں،جن کے بغیر بھی شادی بخوبی ہوسکتی ہے۔ کوئی فرد اس بات کو محسوس ہی نہیں کرتاکہ جس انداز میںہم شادی کی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں،کیا وہ جائز ہے یا ناجائز، اور جو کچھ ہم کررہے ہیںاُس سے اللہ اور اُس کے رسول ؐ خوش ہونگے یا ناراض۔گویا ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی ہم خوفِ خدا کو یکسر بھول بیٹھےہیں۔ظاہر ہے کہ ایسا خرچ جو کہ ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے کیا جائے یا مخلوق خدا کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کیا جائے، یہ ضروری خرچ ہے۔ لیکن ہم نے انسانی زندگی میں ضروریات زندگی کے علاوہ دوسری قسم کا خرچ بھی داخل کردیا ہے ، جس کو اسراف کا نام دیاجاسکتا ہے۔ جو خرچ نمود ونمائش ، نفس کی تسکین ، ذوق وشوق کی تکمیل یا اپنی اَنّا کیلئے کیا جائے، وہ اسراف اور فضول خرچی کی تعریف میں آتا ہے۔ دورِ حاضر میں یوں تو ہر شخص اس بُرائی میں مبتلا ہے لیکن وہ قوم جو احکام شریعت اور نظام زندگی پر عمل کرنے کی دعوے دار ہے، وہ بھی اس قبیح بُرائی سے لَت پت ہورہی ہے،جبکہ فضول خرچی اور اسراف کے معاملے میں مسابقت ہونے لگی ہے۔ امیر،غریب، شہری ، دیہاتی ، جاہل، عالم اور عورت ومرد سب اس بُرائی کو اپنائے ہوئےہیں۔ شادی بیاہ اور چھوٹی موٹی تقریبات پر دولت کو پانی کی طرح بہانا قابل فخر بن گیا ہے، روز مرہ کی زندگی میں بھی اسراف وفضول خرچی داخل کردی گئی ہے، گھروں کی سجاوٹ ، لباس کے اہتمام، سواریوں کی خریداری اور دوسری ضروریاتِ زندگی کی تکمیل میں ہر شخص تفاخروتکاثر کی راہ پر گامزن ہے ۔کچھ لوگوں کوکا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی کو دولت سے نوازا ہے تو اسے استعمال کرنے میں اور خاص کر اپنی خوشیوں کو دو بالا کرنے، اپنے ارمانوںکی تکمیل کرنے اور عیش وآرام کیلئے صرف کرنے میں کیا حرج ہے؟ یقینا ًمال ودولت اللہ کی نعمت ہے، جس کی حاصل ہونے پر ہر شخص کو شکر اداکرنا چاہئے، لیکن اللہ تعالیٰ دولت عطاکرکے کسی فرد کو یہ کامل اختیار نہیں دیا کہ وہ جیسے چاہے خرچ کرے۔ اسلام نے نہ حصولِ دولت میںحرص وہوس کی اجازت دی ہے اور نہ خرچ میں بے اعتدالی کی اجازت۔ بلکہ یہ بات بھی بتادی ہے کہ قیامت کے دن دولت کی آمد وخرچ کے متعلق سوال کیا جائیگا۔اس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ شادی کے پکوانوں ، شادی خانوں کی سجاوٹ ، ویڈیواور فوٹو گرافی، زرق برق لباس ، دلہن کے زیورات و دیگر چیزوں پر مقابلہ آرائی ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال ودولت اور روپیہ پیسہ اس لئے دیا ہے کہ اس سے صرف اپنی اور اپنے گھر والوں کی بے جا خواہشا ت پوری کی جائے بلکہ اس لئے دیا ہے کہ اپنی حقیقی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد اپنے عزیز واقارب ، مسکینوں، یتیموں اور محتاجوں کا بھی حق ادا کیا جائے۔ شادی کرتے وقت سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ ضروری خرچہ حق مہر کی ادائیگی ہے، لیکن مہر کی ادائیگی سے متعلق کوئی نہیں سوچتا بلکہ شادیوں میں دن بہ دن بے جا رسومات اور گناہ شامل ہوتے جارہے ہیں۔ یہ گناہ نہ صرف اخروی تباہی وبربادی کا سبب ہیں بلکہ ان فضولیات کی وجہ سے دنیاوی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔کتنا بہتر ہوتا کہ شادیوں کے اخرجات میں اعتدال رکھا جاتااور بےجا رسومات میں اڑائے جانے والا پیسہ بچایا جاتا اور اُس پیسے کو معاشرہ کی فلاح و بھَلا کے کاموں میں صَرف کیا جاتا۔خیر!ہمارے معاشرے بہت کم لوگ ہیں جو دولت مل جانے پر اعتدال کو قائم رکھتے ہیں،حالانکہ اعتدال ایک ایسا ڈورا ہے، جس میں تمام نیکیاں پروئی ہوئی ہیں۔