ربّ ِ کائنات کی طرف سے انسان کو سب سے بڑی نعمت زندگی کی شکل میں دی گئی ہے او ر زندگی صرف ایک بار ملتی ہے ،اس لئے اس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ایسی بیش بہا زندگی سے لطف اندوز ہونا اور اُسے خوشگوار طریقے سے گزارنا انسان کی ذمہ داری ہے ،لیکن آج کل دُنیاوی اُلجھنوں اور مسائل کے شکنجوں میں اپنے آپ کو پھنساکر بیشتر لوگ اپنی زندگیاں عذاب بنائے ہوئے ہیں۔ہر طرف جنگل کا قانون ہے اور ہر سمت چیر پھاڑ کرنے والے درندے اپنے تیز اور نوکیلے دانتوں سے جامۂ انسانیت نوچنے میں ہمہ وقت مشغول دکھائی دیتے ہیں ۔ہر سُو خدا طلبی کے بجائے دنیا طلبی کا دور دورہ ہے۔غرض پوری بستی کے لوگ آج خواہش پرستی کی ادنیٰ سطح پر گِر کر درندوں اور چوپایوں کی زندگی جی کر زمانۂ جاہلیت کی یاد تازہ کرنے میں مصروف ہیں۔
اس بستی کے ہم لوگ جس دین کے پیرو کار ہیں اُس دین کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین دینِ فطرت ہے کیونکہ زندگی کے مختلف پہلوئوں سے متعلق اُس کی تعلیمات فطرت ِ سلیمہ اور صحت مندانہ نظریات کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں اور اُس کے اصول و ضوابط انسان کو درجۂ کمال تک پہنچانے اور اُسے سکون و اطمینان سے بہرہ اندوز کرنے کے لئے کافی ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بستی والوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی صحیح اسلام سے دور ہے کیونکہ وہ اس کی تعلیمات سے بالکل ناواقف ہے جبکہ اسلام فطرت کی نمایندگی کرتا ہے اور اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واضح طور پر دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے ۔لوگوں کے مسائل اور امراض کا حل وہی پیش کرسکتا ہے جو خود اپنے مسائل حل کرچکا ہو اور دینی حقائق کے ساتھ اُن امراض کا علاج کرچکا ہو۔دین تو بالکل صاف و شفاف آئینے کی طرح ہے اور فطرت سلیمہ رکھنے والا شخص ہی اُسے بعینہ اپنے دل و دماغ میں اُتار سکتا ہے ۔ہماری پسماندگی اور مصائب و مشکلات میں مبتلا ہونے کا اولین سبب فطرت ِ سلیمہ کے تقاضوں کو نہ سمجھنا اور انہیں پورا نہ کرنا ہے۔ہمارا کوئی بھی کام تب تک درست نہیں ہوسکتا اور دربارِ خدا وندی میں کوئی نیکی تب تک نیکی ہی تصور نہیں کی جائے گی جب تک نہ لا اِلہٰ الا اللہ پر ہر ایک مسلمان کا پختہ ایمان اور کامل یقین نہ ہو کہ یہی ایک جملہ اسلام کی بنیاد اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ اہم تعلیم ہے،یہی چیز مسلم کو ایک کافر اور مشرک سے الگ کرتی ہے اور اسی کلمہ کے ماننے والوں کے لئے دنیا سے لے کر آخرت تک ترقی ،کامیابی اور سرفرازی ہے اور نہ ماننے والوں کے لئے نامُرادی ،ذِلت اور پستی ۔اتنا بڑا فرق جو انسان اور انسان کے درمیان واقع ہوتا ہے محض ایک چھوٹے سے جملے کو زبان سے ادا کردینے کا نتیجہ ہے ،دس لاکھ بار بھی زبان سے اگر ہم کروسِن کروسِن پُکارتے رہیں اور کھائیں گے نہیں تو ظاہر ہے سَر درد دور نہیں ہوگا ،اسی طرح زبان سے لااِلاالہٰ الااللہ کہہ بھی دیا مگر یہ نہ سمجھے کہ اس چھوٹے سے جملے کے معنیٰ کیا ہیں اور یہ الفاظ کہہ کر ہم نے کتنی بڑی چیز کا اقرار کیا ہے اور اس اقرار سے ہم پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوگئی ہے تو ایسا نا سمجھی کا تلفظ کچھ فائدہ مند نہیں۔دراصل فرق اُسی وقت واقع ہوگا جب اس جملے کے معنی ہمارے دلوں میں اُتر جائیں۔اس کے مطلب پر ہمیں کامل یقین ہوجائے ،اس کے خلاف جتنے اعتقادات ہیں اُن سے ہمارے دل صاف و پاک ہوجائیں۔
توحید جس پر اسلام اصرار کرتا ہے اور جسے سمجھنے کے لئے اُبھارتا ہے وہ حضورؐ کی ایجاد کردہ کوئی بدعت نہیں بلکہ اس دعوت کا اعادہ و تکرار ہے جس کا نعرہ تمام انبیائے کرام ؑ نے لگایا ۔ایک خدا پر ایمان کوئی سیاسی کھیل یا خاص قانون نہیں ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو غافل اور اپنے مقاصد کے لئے استحصال کرنے والے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئی ،یہ وہ بصارت ہے جسے اندھے نہیں پاسکتے ۔کیا انسانوں کو اس طرح چھوڑا جاسکتا ہے کہ وہ زندگی کے سمندر میں تنہا ہاتھ پیر ماریں اور اُس کی تاریکیوں اور گہرائیوں میں غرق ہوجائیں اور کوئی مولیٰ اور مددگار نہ ہو۔ انسان چاہے جتنا طاقتور بنتا ہو کمزور ہے اور جب بھی اکیلا ہوگا اس پر وحشت و پریشانی غالب رہے گی ۔ایک کامل مسلمان اپنی قوم کا مفید عضو ہوتا ہے،اس سے صرف بھلائی کا صدور ہوتا ہے اور اس سے نیکی اور اچھائی کے علاوہ کوئی اور توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔مومن سَر تا پا بھلائی ہے ،اس کی پیشانی پر شرف اور عزت چمکتی ہے ،اُس کی سیرت سے مردانگی جھلکتی ہے،اُس کی شرافت اور بہترین عادتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے سب پہچاننے او رنہ پہچاننے والے اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔
ہماری اس بستی کی یہ بڑی بد بختی ہے کہ یہاں رہنے والوں میں عام طور پر عنایت ،نفس پرستی اور بھلائی کا فوری بدلہ حاصل کرنے کا جذبہ پھیلا ہوا ہے،اُن کے طرز عمل میں خود پسندی سے زیادہ نفس کی سرکشی کا عمل ِ دخل ہے اور آج کل جو سماجی ہلچل پائی جاتی ہے اس کا سرچشمہ یہی ہے،تعاون کا فقدان ،معاشرے کے معاملات سے لاپرواہی ۔اپنی بستی جس میں ہم رہتے ہیں اور اپنی ملت جس سے ہم وابستہ ہیں اور جس پیغام کے ہم علمبردار ہیں ،ان سب سے عدم دلچسپی ،یقین کی کمزوری اور منافقت کی علامت ہے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے خاص مطلب کی حدود میں زندگی گزارتی ہے،اگر ان کی کوئی ضرورت ہوتو اس کا شدید احساس ہوگا اور اُسے پورا کرنے میں پورا زور لگائیں گے ۔اپنے حق کے لئے کوشاں رہیں گے اور اُن پر اگر کوئی حق واجب ہوگا تو اس سے غفلت برتیں گے،اُسے یاد بھی نہیں رکھیں گے جب تک نہ مطالبہ کیا جائے یا مجبور کیا جائے۔باطن کو صاف و پاک کرنے کے بجائے ہم نے صرف ظاہر کو وقعت دی جبکہ اسلام کی نقطۂ نگاہ سے ظاہر کی کوئی اہمیت نہیں کہ پانی اگر بے مزہ ہوچکا ہے تو محض صاف نظر آنے سے کیا فایدہ ہوگا۔اپنے فرائض سے ہم مُنہ موڑتے رہے اور ان کا بوجھ کبھی اپنے کاندھوں پر محسوس نہ کیا بلکہ اُن سے فرار کے راستے تلاشتے رہے،ایسے ناقص طرز عمل سے کوئی قوم اپنے حقوق کی نہ تو کوئی توقع رکھ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مطالبہ کرسکتی ہے۔کیا ہم اپنے وہ سارے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جن کے ہم حقدار تھے؟کیا ہمیں وہ بنیادی اور پیدائشی حق ملا ہے یا ملنے کی کوئی اُمید ہے جس کا مطالبہ یہ قوم پچھلی سات دہائیوں سے کرتی چلی آئی ہے اور جس کے حق میں تقریباً پوری دنیا ہماری معااون و مددگار تھی؟سچ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارے محسن اور حمایتی بھی اب ہم سے مُنہ پھیر کر بیٹھے ہیں ۔وجہ صاف ہے کہ خدا فراموشی نے ہمیں خود فراموش کردیا ہے ۔بے باک اور نڈر ہوکر ہم ایک ایسا ماحول پیدا کرچکے ہیں جس میں اللہ کے قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،معمولی سمجھ کر بڑی باتوں کو نظر انداز کرکے ہم نے اپنے گھروں کے ماحول کو تباہ و برباد کردیا ہے کہ یہاں کی سرکش اور نافرمان جوان پود نگہداشت والی آنکھ ،ڈانٹنے والی زبان اور روکنے والے ہاتھوں سے محروم بچپن کا ہی نتیجہ ہے۔خطا وار ہوکر ہم خود کو بے خطا سمجھ رہے ہیں ،ہر دماغ میں یہ بات بیٹھی ہے کہ اصلی مجرم کوئی اور ہے،مگر حق تو یہ ہے کہ ہم اپنے اوپر ہورہے ظلم پر رضامند ہوکر گناہوں کے مرتکب ہوتے رہے اور ان پر صبر کرکے مجرم بنتے گئے۔ہم نے اپنی حالت بدلنے کی کبھی کوئی ادنیٰ سی کوشش بھی نہیں کی اور حد تو یہ ہے کہ ہمارے قائدین ،مبلغ اور واعظ بھی یہ بات بھول گئے کہ لوگوں کو سحر انگیز تقریروں اور شہد میں گُھلے ہوئے الفاظ سے زیادہ بڑے کارنامے اور شریفانہ اخلاق متاثر کرتے ہیں ۔اپنی نفسیاتی خواہشات کے غلام بن کر ہم نے اُس زبردست اور طاقت والی ذات کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جو بے آواز لاٹھی لے کر خاموشی سے اپنا انتقام لیتی ہے ،اسی لئے آج اصلی مجرم کون ہے کا نعرہ کھوکھلا اور بے وزن لگ رہا ہے کیونکہ اسِ بستی کی پوری قوم ہی مُجرم ہے۔!!
رابطہ۔احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر۔9697334305
����������