بھارت کی فوج کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل بپن راوت کی طرف سے پچھلے چند روز کے اندر دو ایسے بیانات آئے جنہیںاس لحاظ سے اشتعال انگیز بیانات ہی کہا جاسکتا ہے کہ ان میں پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کی کھلی دھمکی ہے ۔پہلے بیان میں انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے تاکہ اسے بھی درد کا احساس ہو ۔سوموار کو ایک اور بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف ایک اور سرجیکل سٹرائیک کی ضرورت ہے ۔اس کے بعد ایک اور بیان میں انہوں نے کہا کہ سر جیکل سٹرائک کی جائے گی ۔پاکستان کے اندر دہشت گردوںکے تربیتی کیمپ ہیں انہیںتہس نہس کرنا پڑے گا ۔ایسے بیانات اس وقت آئے ہیں جب بظاہر ان کے لئے کوئی معقول وجہ موجود نہیں تھی سوائے اس کے کہ نیویارک میں پاک بھارت وزرائے خارجہ ملاقات بھارت نے منسوخ کردی تھی اور اس کے لئے جواز کے طور پر کشمیر میں تین پولیس اہلکاروں کا جنگجوئوں کے ہاتھوں اغوا اور قتل پیش کیا گیا تھا ۔جنرل بپن راوت نے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہاتھا کہ جب تک پاکستان دہشت گردی کی حمایت کرتا رہے گا، اس کے ساتھ کسی طرح کی بات چیت نہیں کی جانی چاہئے ۔کشمیر میں پولیس اہلکاروں کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، اس سے پہلے ایسی متعدد وارداتیں رونما ہوئی تھیں لیکن ان پر فوجی سربراہ نے کوئی بیان نہیں دیا تھا اور نہ ہی حکومت ہند کی طرف سے پاکستان کیخلاف کسی سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا ۔لیکن تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بھارت کو جو بات سب سے زیادہ ناگوار گزری ،وہ یہ ہے کہ پاکستان میں برہان وانی کی تصویر کے ساتھ کئی ڈاک ٹکٹ جاری کئے گئے ۔بھارت کے لئے یہ اگرچہ برداشت کرنے والی بات نہیں تھی تاہم اس کے خلاف ردعمل ظاہر کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہوسکتے تھے جو اس ملاقات پر اثر انداز نہیں ہوتے جو اگرچہ باقاعدہ بات چیت کا آغاز نہیں تھا تاہم طویل عرصے کے بعد رابطے بحال کرنے کا ایک خوشگوار آغاز ضرور تھا جو آگے بڑھتا تو مذاکرات کی بحالی امیدیں بھی پیدا ہوسکتی تھی اوراس تنائو کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی تھی جس نے برصغیر کو بارود کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔
پاکستان میں حال ہی میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوچکی تھی ۔ پاکستان کے عوام نے ان جماعتوں کو تقریباً مسترد کردیا تھا جن میں سے کئی ایک کو بھارت اپنی سرزمین پر کئی بڑی عسکری کاروائیوں کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ایک نئی جماعت نے پہلی بار پاکستان میں اقتدار کی بھاگ ڈور سنبھالی تھی جو ابھی پوری طرح سے مختلف سرکاری اداروں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہی کررہی تھی ۔ ایک ہمسایہ ملک ہونے کی حیثیت سے بھی بھارت کو پہلے اس بات کی پوری پوری جانکاری حاصل کرنی تھی کہ پاکستان کی اس نئی حکومت کا کیا طریقہ کار ہوگا۔اس کے لئے یہ بھی جاننا ضروری تھا کہ پاکستان کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے یا نہیں ۔ خارجہ پالیسی کا کیا اپروچ اختیار کیا جائے گا اور بھارت کے تئیں کیا رویہ اختیار کیا جائے گا ۔پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان نے پہلے ہی یہ عندیہ صاف صاف الفاظ میں دیا تھا کہ خطے کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے سے تعاون کریں اور تجارت کو فروغ دیا جائے ۔اقتدار حاصل کرتے کرتے ہی اتنا کہنا بھی اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ایک بڑے جمہوری ملک جوسیاسی بالیدگی کا بھی دعوے دار ہے، کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ پاکستان میں اتنا کہنا بھی کسی وزیر اعظم کے لئے کتنا کٹھن ہے اور برہان وانی کی تصویر کے ساتھ ان کے نام کی ڈاک ٹکٹ ایک دن میں جاری نہیں کی جاسکتی تھی ۔ یقینا سابق حکومت میں اس کا فیصلہ ہوا ہوگا بھارت یہ بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
پھر سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کو اس طرح سے ایک بہانہ مل گیا ۔ کیا وہ اصل میں یہی چاہتا تھا کہ پاکستان کے ساتھ کسی طرح کے رابطے کی کوئی سبیل نہ بنے ۔واقعہ یہ ہے کہ جو مجبوریاں عمران خان کی ہیں ،وہی وزیر اعظم نریندر مودی کی بھی ہیں لیکن عمران خان نے ان مجبوریوں کے باوجود بھی ایک پہل کی کوشش کی تھی لیکن بھار ت نے اس پہل کو آگے بڑھنے کا موقع دینے کے بجائے اس کا راستہ ہی کاٹ دیا ۔کیا بھارت یہ نہیں جانتا کہ رابطے استوار نہ ہونے کی صورت میں ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے اور وہ ہے ٹکرائوکا۔جنرل بپن راوت اسی ٹکرائو کو ہوا دینے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں ۔دنیا کی ایک بہت بڑی فوج کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے ان کے سوا کون یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا ۔ بھارت اور پاکستان خودچار جنگیں لڑچکے ہیں ان سے کیا نتیجہ برآمد ہوا ۔ کون سا مسئلہ حل ہوا ۔پاکستان کو سبق سکھانے کا جو بھی تصور ان کے پاس ہے، اگر وہ واقعی درست ہے تو اب تک ایسا کیوں نہیں کیا گیا ۔ریاست میں ملی ٹنسی کو اب تین دہائیاں ہونے کو آئی ہیں اوراس طویل عرصے میں اس سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہوا جو آج ہورہا ہے لیکن پاکستان کو سبق سکھانے کا کوئی فارمولا نہیں آزمایا گیا ۔آج کونسا نیا فارمولا ہاتھ لگا ہوگا جسے آزمانے کی بے صبری ہے ۔سرجیکل سٹرائیک بھی ہوئے لیکن ان کا کیا نتیجہ برآمد ہوا ۔ اب اور بھی اگر ہوں گی تو نیا کیا ہے اور مقصد کیا حاصل ہونا ہے ۔
رابطوں سے اور بات چیت کے عمل سے کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ حاصل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن غصے اور اشتعال کوہوا دینے سے نہ کشمیر میں ہونے والے واقعات کو روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس مسئلے کو حل کرنے کی صورت نکل سکتی ہے جس نے پورے برصغیرکی ڈیڑھ ارب کی آبادی کا جینا بھی دوبھر کردیا ہے ۔پاکستان ایک چھوٹا ملک ہی سہی لیکن ایک ایٹمی قوت بھی ہے اور عالمی سطح پر اس کے کئی ایسے دوست بھی ہیں جو اس کی مدد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے اوراگر نوبت ایسی آگئی تو جنگ دوملکوں تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ عالم انسانیت کیلئے بہت بڑی مصیبت بھی لیکر آئے گی ۔
لے دے کے بات پھر وہی پر پہنچ جاتی ہے کہ آنے والے انتخابات کیلئے ایک ایسا ماحول تیار کرنے کی کوشش ہورہی ہے جس میں ملک کے عوام کے ووٹ بٹورنا آساں ہوسکتا ہے ۔عوام گہرائیوں میں نہیں جاسکتے ۔ اکثریت سیاسی سمجھ بوجھ سے بھی عاری ہوتی ہے ۔ ان کی سمجھ میں ایک ہی بات آسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ملک کا سوال ہے اور ملک کی سالمیت پر کوئی بھی خطرہ برداشت سے باہر ہے ۔موجودہ بھاجپا قیادت والی سرکار کا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ اس کے دور اقتدار میں عوام کی اقتصادی حالت بہت ابتر ہوگئی ۔ نوٹ بندی اورجی ایس ٹی جیسے فیصلوں نے کروڑوں لوگوں کو خاک پر بٹھا کر رکھ دیا ۔چھوٹی صنعتیں تقریباً بند ہونے کو ہیں ۔پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ۔ گیس جو عام آدمی کی ضرورت ہے ،کی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ۔ جن فلاحی سکیموں کا اعلان ہوا، ان کا فایدہ بھی عام آدمی تک نہیں پہنچا ۔ رام مندر کا نرمان بھی نہیں ہوا اورریاست جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہوسکا ۔
ان حالات میں بھاجپا کو عوام کے پاس جانا ہے،کیالیکر جائے گی ؟اس لئے ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا ہے کہ ملک کی سا لمیت پر منڈلانے والے خطرات کو استعمال کیا جائے ۔اس پر اپوزیشن کو بھی اعتراض کرنے کی ہمت نہیں ہوسکتی ۔تجزیہ نگار اس کے علاوہ کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرپاتے ہیں اور وہ اس بات سے تھراتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے دنیا بھر کے دورے کئے لیکن وہ ملک کے لئے کچھ نہیں لاسکے ۔ عمران خان نے ابھی دوروں کی شروعات ہی کی کہ کھربوں ڈالر کی انوسٹمنٹ ساتھ لیکر آئے ۔وہ ملک کے ہر شعبے کو تبدیل کررہے ہیں ۔ اداروں کی از سر نو تنظیم کررہے ہیں اور نریندر مودی ملک کو بے شمار عصبیتوں کا شکار کرکے تقسیم کے نئے بیج بورہے ہیں ۔
جب بھاجپا نے اقتدار سنبھالا تو ریاست جموں و کشمیر کی حالت اس قدرابتر نہیں تھی جتنی آج ہے ۔ اس حکومت کی بے مقصد پالیسیوں نے اسے اس حالت تک پہنچایا ہے کہ اب خود سکیورٹی کو بھی سکیورٹی کی ضرورت پڑرہی ہے ۔کئی علاقے حکومت کے قابو سے باہر ہوچکے ہیں اوراس حالت میں بھی میونسپل اور بلدیاتی انتخابات کرائے جارہے ہیں ۔ مین سٹریم ،جو بھارت اور ریاست جموں و کشمیر کے درمیان جوڑ کی واحد کڑ ی تھی، کوبھی اس حد تک بے اعتبار کردیا گیا ہے کہ اس نے انتخاب کے بائیکاٹ کاراستہ اختیار کیا ۔ان فاش غلطیوں پر نظر رکھنے اور انہیں سدھارنے کے بجائے پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ اس سے خود بھارت ہی بھارت مخالف قوتوں کو مضبوط بناکر اپنے لئے مزید مشکلات کو دعوت دے رہا ہے ۔
( بشکریہ ہفت روزہ نوائے جہلم سرینگر)