بلا شبہ ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نوکریوں کی اہل ہے لیکن روزگار کا وسائل نایاب ہونے کے باعث اُن کی اہلیت ضائع ہوگئی ہے۔ یہ صورتِ حال نہ صرف باعث ِتشویش بلکہ قابل ِ غوروفکر بھی ہے کہ ہمارے یہاں پڑھنے والے قابل اور ذہین طلبا کے لیے روزگار کے مواقع کتنے محدود ہیں۔بغور دیکھا جائے تو پچھلے دو تین عشروںسے یہاں کے لوگوں کی معیشتی پستی،اقتصادی بد حالی اور بےروزگاری کے حوالے سے چلی آرہی صورت حال نے ہمارے سامنے کئی تلخ سچائیاں بے نقاب کرکے رکھ دی ہیں، جن سے اگر ہم آج بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرپاتے توہمارے کل کوپریشانیوں کے سمندر میں ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتاہے۔ہاں!یہ بات بجا ہےکہ گزشتہ صدی کے اواخر تک ہمارے معاشرے میں یہ بات بالکل عام تھی کہ اچھی تعلیمی ڈگری ہی اچھے روزگار کی ضمانت ہوتی تھی اور یہ بھی سچ ہے کہ مراعات یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم طبقہ ہی اپنی اولاد کو وہ تعلیمی ڈگریاں دلوا سکتے، جس سے وہ معاشی طور پر محفوظ رہتے تھے۔ اسکے برعکس آج اگر طالب علم میں خود محنت کی لگن اور صلاحیتیں بھی ہوں تو وہ ایک الگ کہانی ہے،لیکن اپنے وسائل کے مطابق تعلیم دلوانے کے باوجود آج کے والدین کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کو بے روزگار ہی پاتا ہے کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی آبادی کے اتنے بڑے حصے کے لیے نوکریوں کا حصول ممکن ہی نہیںرہاہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کا مسئلہ درپیش ہے۔ ڈگریاں ہاتھ میں تھامے لاکھوں نوجوان ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن ملازمت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک روایتی سوچ کے تحت ہم نے ٹیکنیکل تعلیم اتنی اہمیت نہیں دی ہے جتنی کہ ضرورت تھی،جبکہ روایت پسندی کے تحت بیشتر لوگ اب بھی ووکیشنل روزگار کو اچھا نہیں سمجھتے ہیں۔اگر دوران تعلیم ہمارے معاشرے کے نوجوانوں اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کوئی ہُنر یا ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرلی ہوتی تو شائد نوکریوں کی تلاش میں اتنے دھکے نہ کھانے پڑتے۔ٹیکنیکل تعلیم جسے ووکیشنل تعلیم بھی کہا جاتا ہے، کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہےاور کسی بھی ملک یا معاشرے میںٹیکنیکل تعلیم یا مہارتوں کے مطابق روزگار کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ٹیکنیکل بنیادوں پر مبنی تعلیم کے متعدد فائدے ہیں ۔ اوّل یہ کہ ایسے ادارے طلبا کو ڈپلوما سرٹیفکیٹ ملنے تک مکمل طور پر تجربہ کار بنا چکے ہوتے ہیں اور انہیں انٹرن شپ کے نام پر کمپنیوں میں ڈگری کے باوجود بلامعاوضہ محنت نہیں کرنا پڑتی اور وہ اپنے کاروبار یا نوکری دونوں کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کی تعلیمی میعاد اور فیس بھی عام اداروں سے کم ہوتی ہے۔ اگر کوئی طالب علم بیرون ریاست یاپردیس میں بھی کام کرنے کا شوقین ہو، تو ایسے ماہر طلبا کے لیے بیرون ریاست یا بیرونِ ملک بھی روزگار کے مواقع موجود ہیں۔خصوصاًہیلتھ سائنسز، بائیو میڈیکل ٹیکنیشن، فارمیسی، لیب ٹیکنیشن، نرسنگ (ایل، ایچ، وی)، فارمیسی، مڈوائفری، ٹیکنیکل، فیشن انڈسٹری، کاسمیٹکس، لیدر اینڈ گارمنٹس انڈسٹری، الیکٹریکل ریپئیر، آرٹس اینڈ کرافٹس، مینوفیکچرنگ وغیرہ، وہ ٹیکنیکل ہنر ہیں جو سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کے بعد روزگار کےپُرکشش مواقع فراہم کرتے ہیں۔چنانچہ ہمارے معاشرے کے جن طلباء کے والدین اُنہیں کافی پیسہ خرچ کرکے اعلیٰ تعلیم دلا بھی دیں اور یہاں انہیں اپنی قابلیت اور اہلیت کے مطابق پیسہ نہ ملے تو وہ ملک کی دوسری ریاستوں یادوسرے ممالک میں اچھا روزگارحاصل کرچکے ہیں اور کررہے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے معاشرے کے والدین اپنے زیر تعلیم بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم سے بھی آراستہ کرائیںتاکہ آگے چل کر وہ روزگار کے حصول کا محتاج نہ رہیں۔جبکہ حکومت کے لئے لازم ہے کہ وہ تمام تعلیمی اداروں میںووکیشنل تعلیم کا سلسلہ رائج کرائیں اور یہ تعلیم آٹھویں جماعت سے بارہویں جماعت تک دی جائے تاکہ حصول تعلیم کے دوران ہی اُنہیں ٹیکنیکل تعلیم کی اہلیت حاصل ہوسکے۔ پھر یہ تعلیم یافتہ نوجوانوںپر منحصر ہے کہ وہ صرف اعلیٰ تعلیم کی ڈگری کے حصول سے ہی اپنےروشن مستقبل کا خواب پورا ہونے کا انتظارکریںگے یا کسی ہنر میں مہارت حاصل کرکے اپنی راہیں خود متعین کریں گے۔