اسلام میں نماز اور ادب کا مقام

 حضرت نظام الدین اولیاء ؒ اکثر ایک جملہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہم سے تو دھوبی کا بیٹا ہی خوش نصیب نکلا، ہم سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا‘‘۔ پھر غش کھا جاتے- ایک دن ان کے مریدوں نے پوچھ لیا کہ حضرت یہ دھوبی کے بیٹے والا کیا ماجرا ہے؟
آپؒنے فرمایا ایک دھوبی کے پاس محل سے کپڑ ے دھلنے آیا کرتے تھے اور وہ میاں بیوی کپڑ ے دھو کر پریس کر کے واپس محل پہنچا دیاکرتے تھے، ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو جوان ہوا تو کپڑ ے دھونے میں والدین کا ھاتھ بٹانے لگا، کپڑ وں میں شہزادی کے کپڑ ے بھی تھے، جن کو دھوتے دھوتے وہ شہزادی کے نادیدہ عشق میں مبتلا ہو گیا، محبت کے اس جذبے کے جاگ جانے کے بعد اس کے اطوار تبدیل ہو گئے، وہ شہزادی کے کپڑ ے الگ کرتا انہیں خوب اچھی طرح دھوتا، انہیں استری کرنے کے بعد ایک خاص نرالے انداز میں تہہ کر کے رکھتا، سلسلہ چلتا رہا آخر والدہ نے اس تبدیلی کو نوٹ کیا اور دھوبی کے کان میں کھسر پھسر کی کہ یہ تو لگتا ہے سارے خاندان کو مروائے گا، یہ تو شہزادی کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہے، والد نے بیٹے کے کپڑ ے دھونے پر پابندی لگا دی، ادھر جب تک لڑکا محبت کے زیر اثر محبوب کی کوئی خدمت بجا لاتا تھا، محبت کا بخار نکلتا رہتا تھا، مگر جب وہ اس خدمت سے ہٹایا گیا تو لڑکا بیمار پڑ گیا اور چند دن کے بعد فوت ہو گیا۔
ادھر کپڑوں کی دھلائی اور تہہ بندی کا انداز بدلا تو شہزادی نے دھوبن کو بْلاوا بھیجا اور اس سے پوچھا کہ میرے کپڑے کون دھوتا ہے؟ دھوبن نے جواب دیا کہ شہزادی عالیہ میں دھوتی ہوں، شہزادی نے کہا پہلے کون دھوتا تھا؟ دھوبن نے کہا کہ میں ہی دھوتی تھی، شہزادی نے اسے کہا کہ یہ کپڑا تہہ کرو، اب دھوبن سے ویسے تہہ نہیں ہوتا تھا، شہزادی نے اسے ڈانٹا کہ تم جھوٹ بولتی ہو، سچ سچ بتاؤ ورنہ سزا ملے گی، دھوبن کے سامنے کوئی رستہ بھی نہیں تھا دوسرا کچھ دل بھی غم سے بھرا ہوا تھا، وہ زار و قطار رونے لگ گئی، اور سارا ماجرا شہزادی سے کہہ دیا، شہزادی یہ سب کچھ سن کر سناٹے میں آ گئی۔
پھر اس نے سواری تیار کرنے کا حکم دیا اور شاہی بگھی میں سوار ہو کر پھولوں کا ٹوکرا بھر کر لائی اور مرحوم دھوبی کے بچے کی قبر پر سارے پھول چڑھا دیے، زندگی بھر اس کا یہ معمول رہا کہ وہ اس دھوبی کے بچے کی برسی پر اس کی قبر پر پھول چڑ ھانے ضرور آتی۔
یہ بات سنانے کے بعد کہتے، اگر ایک انسان سے بن دیکھے محبت ہوسکتی ہے تو بھلا اللہ سے بن دیکھے محبت کیوں نہیں ہو سکتی؟ ایک انسان سے محبت اگر انسان کے مزاج میں تبدیلی لا سکتی ہے اور وہ اپنی پوری صلاحیت اور محبت اس کے کپڑ ے دھونے میں بروئیکار لا سکتا ہے تو کیا ہم لوگ اللہ سے اپنی محبت کو اس کی نماز پڑ ھنے میں اسی طرح دل وجان سے نہیں استعمال کر سکتے؟ مگر ہم بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر شہزادی محبت سے تہہ شدہ کپڑوں کے انداز کو پہچان سکتی ہے تو کیا رب کریم بھی محبت سے پڑھی گئی نماز اور پیچھا چھڑانے والی نماز کو سمجھنے سے عاجز ہے؟
حضرت نظام الدین اولیاء ؒپھر فرماتے وہ دھوبی کا بچہ اس وجہ سے کامیاب ہے کہ اس کی محبت کو قبول کر لیا گیا جبکہ ہمارے انجام کا کوئی پتہ نہیں قبول ہو گی یا منہ پر ماردی جائے گی،اللہ جس طرح ایمان اور نماز روزے کا مطالبہ کرتا ہے اسی طرح محبت کا تقاضا بھی کرتا ہے، یہ کوئی مستحب نہیں فرض ہے! مگر ہم غافل ہیں۔
پھر فرماتے اللہ کی قسم اگر یہ نمازیں نہ ہوتیں تو اللہ سے محبت کرنے والوں کے دل اسی طرح پھٹ جاتے جس طرح دھوبی کے بچے کا دل پھٹ گیا تھا، یہ ساری ساری رات کی نماز ایسے ہی نہیں پڑھی جاتی کوئی جذبہ کھڑا رکھتا ہے، فرماتے یہ نسخہ اللہ پاک نے اپنے نبی ؐ کے دل کی حالت دیکھ کر بتایا تھا کہ آپ نماز پڑھا کیجئے اور رات بھر ہماری باتیں دہراتے رھا کیجئے آرام ملتا رہے گا، اسی وجہ سے نماز کے وقت آپ فرماتے تھے ’’ اے بلال ہمارے سینے میں ٹھنڈ ڈال دے اذان دے کر‘‘
سجدے کی سب سے بڈی خوبصورتی یہ ہے کہ زمین سے کی جانے والی سرگوشی آسمانوں پر گونجتی ہے اْس وحدہْ لاشریک سے دْعا ہے کہ ہم سب کو ہمیشہ پاکیزہ اور با عزت رکھے اور ہم سب کو نماز قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نماز مذہب اِسلام کے بنیادی ارکانوں میں سے ایک ہے احادیث میں آیا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے بلکہ یہاں تک آیا ہے کہ جس نے نماز ترک کی اْس نے دین کی بنیاد مٹا دی ۔نبی پاکؐنے فرمایا نماز میرے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے  مساجد کی رونق اس کے در و دیوار کو روشنیوں سے سجانے میں نہیں ہے بلکہ پیارے نبی ؐنے فرمایا مسجد کی زینت نماز سے قائم کرو۔سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ رسول اللہ ؐنے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ’’ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا خواہ تمھیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اور آگ میں جلا دیا جائے،جان بوجھ کر فرض نماز کو ترک نہ کرنا کیونکہ جس نے جان بوجھ کر فرض نماز کو چھوڑا اس سے(اللہ عزوجل کی حفاظت کا )ذمہ جاتا رہا،اور شراب نہ پینا کیونکہ شراب ہر بْرائی (یعنی گناہ کی ) جڑ ہیں‘‘۔ (حسن؛ ابن ماجہ:4034 )
بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن نماز پر سب سے پہلے پکڑ ہوگی۔قرآن مجید میں اللہ کا فرمان کہ نماز ہمیں بْرے کاموں سے روکتی ہے،نماز ہمیں کامل آدابِ زندگی اور بندگی سکھاتی ہے ۔
کمالِ ادب…… لفظِ ادب کو اگر گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے تو کوئی بھی ایسی عمل نہیں ہے جو حسن ادب سے خالی ہو آپ بات کریں گے تو ادب کے ساتھ آپ چلیں گے تو ادب کے ساتھ کھائیں گے تو ادب کے ساتھ اسلام میں ایسی کوئی کہنی والی بات یا کرنے والا عمل نہیںجس میں حْسن ادب ملحوظ نظر نہ رکھا گیا ہو ۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالے سے ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ادب کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حدوں کی پاس داری کرتے ہوئے کامل ادب کا خیال رکھا اللہ تعالیٰ کے دین میں ذرہ برابر کمی پیشی نہیں کی،یہی کمالِ ادب ہے ۔
اہل علم کا متفق طور ماننا ہے کہ الدین کْلّْہ ادب یعنی دین سارے کا سارا ادب پر مبنی ہے دین ہی تمام آداب سکھاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرتِ ادب پر اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں اس طرح ترجمانی کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم ہو۔ اگر آپ سخت دل ہوتے تو وہ تمھارے پاس سے منتشر ہو جاتے۔( آل عمران 159…)
 میں بحیثیت طالب علم سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی سب سے اعلیٰ حسن ادب تھا کہ جو شخص بھی آپ سے قریب ہوا وہ آپ کی عظمتوں کا شیدائی بن گیا اور یہی اعلیٰ کردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامیابی کا گہرا راز ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب کے بارے میں آگے چل کر قرآن میں فرمایا کہ کہ بے شک اے نبی آپ ؐ اخلاق کے اعلی مقام پر ہیں۔
ہم سب اپنے نبی پاک ؐ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ پر خالی اظہار کرنے سے ہم عاشقِ نہیں بن سکتے، عاشق کو اپنے محبوب کی ہر ایک ادا پسند ہوتی ہے ۔جب تک ہم دین میں پورے پورے داخل نہیں ہونگے، اپنے آپ کو نبی پاک ؐ کے رنگ میں نہیں ڈالیں گے، ہمارا اظہار  بے سود اور بے معنی ہے۔ نبی پاکؐ کے نورانی مسنون طریقوں میں سو فیصد کامیابی ہے اور غیرْاللہ کے طریقوں میں سو فیصد ناکامی ہے۔قرآن بھی یہی فرماتا ہے کہ اللہ پاک کے حبیبؐکا راستہ یعنی اسوتً حسنہ ہم سب کے لیے بہترین راستہ ہے ۔غیر مسلم بھی ہمارے نبیؐ کو صادق اور امین کے لقب سے نوازے بنا رہ نہ سکے۔آپؐکے قول و فعل دیکھ کر اپنی امانت آپؐ کے پاس رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ اْن کی امانت میں خیانت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
 رابطہ۔ پاندریٹھن سرینگر حال اومپورہ ہاؤسنگ کالونی
فون نمبر۔ 9205000010
ای میل۔[email protected]