اسلام نے عالم انسانیت کے لئے ایک ایسا جامع، ارفع و اعلیٰ مقام و نظام عفت پیش کیا جس نے ایک طرف صدیوں کی ماری ہوئی عورت کو ذلت کی پستیوں سے نکال کر عظمت و تقدس کی چوٹی پر لابٹھایاتو دوسری طرف انسانیت کی فطری حدود کو اعتدال کی راہوں پربھی گامزن کیاجس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اسلام کا نظام عفت بلا شک و شبہ اپنے اندر بیش بہا دولت، لازوال رحمت اور بے انتہاء برکت لئے ہوئے ہے۔ اور وہ عورت جس کے ساتھ ظہور اسلام سے قبل زمانہ جہالت میں انسانیت کے درجہ میں لانا عار سمجھا جاتا تھا اس کو اسلام نے سربلندی اور وقار عطاء فرمایا۔ یہ اسلام ہی کا فیضان تھا جس نے عورت کو نہ صرف اعلیٰ مقام و مرتبہ دیا بلکہ ترقی کے اعلیٰ مدارج بھی عورت نے اسلام ہی کے جھنڈے تلے طے کئے۔ اسلام نے ہر قسم کی سماجی اور فحاشی برائیوں کا بڑے حکیمانہ انداز سے خاتمہ بھی کر دیا اور ایک صالح اور پاکیزہ اسلامی معاشرے کی بنیاد بھی رکھی۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے سازسے ہے زندگی کا سوزِدروں
(اقبال)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں مردوں کے اوصاف اور درجات بیان کیے تو وہیں عورت کے حقوق،ا س کی شان اور اس کے کردار کو بلند اور واضح کردیا۔ اور اس ایک ایسا منفرد مقام عنایت کیا کہ جس کا ظہور اسلام سے قبل تصور کرنا ایک ناممکن سی بات تھی۔چناچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو! یہ بات تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو، اور ان کو اس غرض سے مقید مت کرو کہ تم نے جو کچھ ان کو دیا اس کا کچھ حصہ لے اڑو، الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہوں۔‘‘(النساء:۱۹)
اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے عورت کو پستی اور ذلت سے نکال کر عظمت و رفعت کے درجات دیے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ نساء میں جامع ا علان کیا کہ مرد اور عورت دونوں نفس واحدہ سے پیدا کیے گئے ہیں۔یہ اسلام ہی کا احسان ہے جس نے عورت کو مردوں کی طرح فعال مؤثر قرار دیا۔ اللہ کے محبوب نبی ﷺ وہ پہلی اور آخری شخصیت ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عورت کو وقار اور افتخار کی دولت سے مالامال کیا اور اس کی عزت افزائی کی اور احترام، محبت اور خلوص کا متعین ٹھہرایا۔ اسے ستر، حجاب، حیا اور شرافت اور انسانیت کا لبادہ اوڑھا کر نسوانیت کے زیورات سے آراستہ و پیراستہ کر کے مسلم معاشرے میں عزت، غیرت اور تقدس کا محور بنا دیا۔ قرآن و احادیث میں متعدد جگہ اسکے ممتاز مقام اور حیثیت کا تعین کیا ہے۔ا ور اسکے ادب و احترام کی تاکید کی گئی ہے۔ چناچہ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہیـ،ـ’’عورتوں کے لئے بھی معروف طریقہ پر وہی ہے جو مردوں کے لئے ہے‘‘(البقرہ:۲۲۸)۔ اسی طرح ارشاد نبیﷺ ہے کہ’’عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر کے حصہ میں ہوتی ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنے لگوتو تم اس کو توڑدو گے اور اگر تم اس کو چھوڑ دو تو وہ ویسی ہی رہے گی۔ پس تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی میری نصیحت قبول کرو‘‘۔(بخاری)عورت کا درجہ اسلام میں وہی ہے جو مرد کا درجہ ہے بلکہ قرآن نے دونوں کو ایک دوسرے کے ہم جنس قرار دیا (آل عمران: ۱۹۵)، حقوق ،وقار اور آخرت کے جزا میں دونوں یکساں ہیں۔ البتہ ا سلام کے نزدیک مرد مرد ہے اور عورت عورت اور نظام زندگی کو آگے بڑھانے میں دونوں برابر شریک ہیں تاہم یہ اصول تقسیم کاری پے مبنی ہے نہ کہ یکسانیت پے۔اور اسلام اس بات کو قطعی پسندنہیں کرتاکہ دونوںمیںسے کوئی صنف اپنے کوئی دوسرے سے کم سمجھے اورایک دوسرے کی نقل کرنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ ایک اورحدیث میں اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایاکہــ’’عورتوں کو عزت وہی شخص دے گاجو شریف ہو اور عورتوں کو وہی بے عزت کرے گا جو کمینہ ہو‘‘۔(بخاری)
نبی کریم ﷺ نے عورت کو ایسے اخلاقی و قانونی تحفظات فراہم کیے کہ جن کی بدولت عورت معاشرے میںبے حد عزت واکرام اور افتخار اعزاز کی حامل بن گئی اور اسلامی معاشرے میں عورت کو وہ بلند حیثیت حاصل ہوئی۔ جسکی نظیر کسی دوسرے معاشرے یا کسی دوسری سوسائٹی میں ملنی مشکل ہے۔
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکھی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا ہے شرارافلاطوں
(اقبال)
عورت کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے اور ان کے حصول کے لئے بے شمار راہوں کو کھول بھی دیا ہے۔ کہ مردوں کی مزحمت اور مقابلہ آرائی کے بغیر ہی وہ بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دیئے سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ کہ عورت نے انسانیت کی تعمیر نو اور ہر قسم کی سماجی اور دینی خدمات میں اپنا کردار اور اپنی ذمہ داری نہایت احسن طریقے سے نبھائی۔ اس نے علم و فضل، تہذیب و ثقافت اور ادب مرتب کے میدان میں ایک جاندار تحریک کو پروان چڑھانے میں ایک کلیدی رول ادا کیا۔ ایک طرف حضرت آدمؑ کی شریک زندگی حواؑ ہیں۔ دوسری طرف حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ مریم ؑ اور سرور دوعالم حضرت محمد ﷺکی ازواج مطہرات میں حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ۔ ان کے علاوہ نبی کریم ﷺ کی جگر گوشہ حسنینؓ کی والدہ سیدہ فاطمہ الزہراؓ بھی ہیں۔ سیاست میں ملکہ بلقیس سے لے کر ہارون الرشید کی ماں خیزران اور بیوی زبیدہ کا نام بھی باکمال خواتین میں لیا جاسکتا ہے۔شاعر خواتین میں خنساء، عائشہ بنت طلحہ اور روحانی کمالات میں رابعہ بصری کو کون فراموش کرسکتا ہے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
(اقبال)
ان تمام حقائق کو جاننے، سمجھنے اور پرکھنے کے باوجود بھی آج کی عورت اپنا مزید مرتبہ اور مقام ڈھونڈ رہی ہے۔ عورت کو جو شرف، جو امتیاز عورت کے روپ میں ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا،ا ور آج کی عورت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ موجودہ دور میں وہ جس آزادی کی خواہاں ہے وہ دراصل سراسر غلامی ہے۔ اس سے عورت کی مشکلات آسان نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہو جائیں گی اورانسانیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو جائے گا کہ وہ عورت کو جو ماں کہلاتی ہے وہ جزبہ ہی ختم ہو جائے گا اور پھر وہ علم، وہ عزت، وہ آزادی کس کام کی جس سے عورت اپنی خصوصیت ہی کھودے اور وہ علم نہیں بلکہ موت ہے اور آج کی مغربی تہذیب عورت کو اسی موت کی دعوت دے رہی ہے۔اقبال کے خیال کے مطابق ملت کی خواتین کو چاہئے کہ وہ قوم کی تعمیر سازی کا کام کریں اور قوم کی شام الم کو صبح بہار سے بدل دیں اور وہ اس طرح سے قرآن کا فیض عام کریں جیسے حضرت عمر ؓ کی ہمشیرہ نے اپنی قرآن خوانی سے ان کی تقدیر بدل دی اور اپنے لحن و لہجہ کے سوز وساز سے ان کے دل کو گداز کردیا تھا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمان آئندہ نسل کو مسلمان رکھنے میں کبھی بھی کامیاب نہ ہو پائیں گے ، اگرمسلم گھرانوں کی عورتیں اس بات کا ارادہ یہ کریں کہ اپنے بچوں کو دین سے واقف کرانا ضروری ہے اور یہ کام صرف عورت ماں، بہن اوربیٹی بن کر ہی انجام دے سکتی ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو گھر میں توحید کا درس دے سکتی ہے اور شرک و بدعت، بت پرستی سے اپنے بچوں کو روک سکتی ہے۔ آج کی عورت ہی اسلام کے بقاء اور تحفظ کو بقائے دوام عطاء کر سکتی ہے۔ آج کی عورت کو قرون اول کی عورت کی طرح اسلامی زندگی اور اسلامی معاشرے کا ایسا نمونہ پیش کرنا ہوگا جسے نئی نسل کو دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں سرخروئی حاصل ہو۔ اور اگر آج کی عورت کو یہ کوشش بارآور ہو جائے تو وہ نہ صرف ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت انجام دے گی بلکہ اسلام کی بھی خدمت انجام دے گی۔
(مضمون نگار بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں شعبہ اسلامک سٹیڈیزکی طالبہ ہیں)