انجینئر تعظیم کشمیری
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میںسورۃ النساء میں ارشاد فرمایا ہے: ’’اور جب لوگوں کا (خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں) تصفیہ کیاکرو ،تو عدل سے تصفیہ کیا کرو۔‘‘اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ’’لوگوں میں تصفیہ کیا کرو‘‘ فرمایا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں سب انسان مساوی ہیں، مسلم ہوں یا غیر مسلم، دوست ہوں یا دشمن، فیصلہ کرنے والوں پر فرض ہے کہ ان سب تعلقات سے الگ ہوکر جو بھی حق و انصاف کا تقاضا ہو، وہ فیصلہ کریں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو فیصلے حق و انصاف کی بنیاد پر نہیں ، وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور ظلم ہوں گے۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نےسورۃ المائدہ میں ارشاد فرمایا : ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے لئے پوری پابندی کرنے والے انصاف کے ساتھ شہادت ادا کرنے والے رہو اور کسی خاص قوم کی عداوت تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہوجائے کہ تم عدل نہ کرو۔ ہر ایک کے ساتھ عدل کیا کرو کہ وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ مذکورہ آیت میں واضح طور پر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ انصاف قائم کرنا اور اس پر قائم رہنا حکومت اور عدالت ہی کا فریضہ نہیں بلکہ ہر انسان اس کا مکلف و مخاطب ہے کہ وہ خود بھی انصاف پر قائم رہے اور دوسروں کو بھی انصاف پر قائم رکھنے کی کوشش کرو، تیسری جگہ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ: ’’بیشک اللہ تعالیٰ اعتدال اور احسان اور اہلِ قرابت کو دینے کا حکم فرماتے ہیں اور کھلی بُرائی اور مطلق بُرائی اور ظلم (خواہ کسی مذہب کے ماننے والے بلکہ کسی بھی مخلوق پر ہو) کرنے سے منع کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ تم کو اس لئے نصیحت فرماتے ہیں کہ تم نصیحت قبول کرو۔‘‘ یہ آیت قرآن کریم کی جامع ترین آیت ہے جس میں پوری اسلامی تعلیمات کو چند الفاظ میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عدل، احسان اور اہلِ قرابت (رشتہ داروں) کو بخشش کا حکم دیا ہے اور فحش و بے حیائی اور ہربُرے کام اور ظلم و تعدی سے منع فرمایا ہے۔ عدل کی حقیقت یہ ہے کہ تمام مخلوقات کے ساتھ خیر خواہی و ہمدردی کا معاملہ کرے اور کسی چھوٹے بڑے معاملے میں کسی سے خیانت نہ کرے، سب لوگوں کے لئے اپنے نفس سے انصاف کا مطالبہ کرے، کسی انسان کو اس کے کسی قول و فعل سے ظاہراً یا باطناً کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ (معارف القرآن)۔ قرآن میں چوتھی جگہ اللہ نے فرمایا کہ: ’’ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلے کھلے احکام دے کر بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور انصاف کرنے (کے حکم) کو نازل فرمایا تاکہ لوگ (حقوق اللہ اور حقوق العباد میں خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم) اعتدال پر قائم رہیں‘‘۔ (سورۃ الحدید، آیت نمبر: ۲۵) اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے اُتارنے کا سارا نظام عدل و انصاف ہی کے لئے کھڑا کیا گیا ہے، رسولوں کا بھیجنا اور کتابوں کا نازل کرنا اسی مقصد کے لئے عمل میں آیا ہے، پھر کیسے ممکن ہے کہ کسی سچے نبی اور اس کے لائے ہوئے دین کی کوئی تعلیم عدل و انصاف کے خلاف ظلم و تعدی پر مبنی ہو۔’’اور اگر آپ فیصلہ کریں تو ان میں عدل کے موافق فیصلہ کیجئے، بیشک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ المائدہ) اس آیت سے معلوم ہوا کہ عدل وانصاف کرنا اور بنا کسی بھید بھاؤ کے کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، اللہ ایسے بندے کو محبوب رکھتا ہے جس کا برتاؤ اس کے بندوں کے ساتھ انسانیت کی بنیاد پر عدل و انصاف کے مطابق ہوتا ہے اور جو آدمی عدل و انصاف نہیں کرے گا، وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب نہیں ہوگا۔عدل و انصاف کے سلسلے میں حضورؐ کے کچھ ارشادات حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ عدل و انصاف کرنے والے بندے اللہ تعالیٰ کے یہاں نور کے منبروں پر ہوں گے۔ اللہ کے داہنی جانب یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل و عیال اور متعلقین کے ساتھ معاملات میں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔(رواہ مسلم) اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح آدمی کو دوسروں کے ساتھ عدل و انصاف کی تاکید ہے، اسی طرح اس پر اپنے اہل خانہ اور آل واولاد کے ساتھ عدل و انصاف کی تاکید ہے، ظلم ہرجگہ ظلم ہے، خواہ بیوی اور اولاد ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو۔حضرت ابوسعیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرنے والا حاکم قیامت کے دن اللہ کو دوسرے سب بندوں سے زیادہ محبوب اور پیارا ہوگا، اس کو اللہ کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوگا اور قیامت کے دن اللہ کا سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ عذاب میں مبتلا ظلم کرنے والا حاکم ہوگا۔ (جامع ترمذی، باب ماجاء في امام عادل) چونکہ حاکم کے پاس قوت اور طاقت ہوتی ہے، اس لئے قدم قدم پر اس سے ظلم و تعدی کا عمل ظاہر ہوسکتا ہے۔ اللہ کے نبیؐ کا یہ ارشاد اس کو آگاہ کرتا ہے کہ قیامت کے دن تم کو بھی بادشاہوں کے بادشاہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اس کی عدالت میں ہمیشہ فیصلہ مظلوم کے حق میں ہوگا، اس لئے یہاں ظلم سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو، تاکہ قیامت میں اللہ کے محبوب بن سکو۔حضرت عیاض بن حمارؓسے روایت ہے کہ رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ جنتی تین لوگ ہیں: ایک وہ بادشاہ جو عدل و انصاف اور صدقہ و خیرات کرنے والا ہے، دوسرا ایسا شخص جو ہر رشتہ یامن اور پاک دامنی کی کوشش کرنے والا ہو۔(رواہ مسلم)حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں مال تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک شخص (مال لینے والا) حضورؐ کے اوپر اوندھا ہوکر آگرا، آپؐکے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، آپؐ نے اس سے کچوکا لگایا، جس سے اس کے چہرے پر کچھ خراش آگئی، تو آپؐ نے فرمایا کہ مجھ سے بدلہ لے لو (گویا محض معافی نہیں چاہی، بلکہ انتقام لینے کی پیشکش فرمادی) تو اس نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ میں نے معاف کردیا۔(رواہ ابوداؤد) اللہ کے نبی عام انسانوں کی طرح کاکردار نہیں رکھتے تھے جو دوسروں کو حکم تو دیتے ہیں، لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے، بلکہ اگر آپ سے نادانستہ کوئی ایسا کام ہوگیا جو دوسرے کیلئے تکلیف دہ ہے تو پیشکش فرماتے ہیں کہ وہ بدلہ لے لے۔حضرت ابوفراس کہتے ہیں: حضرت عمرؓ نے ایک خطبہ میں عام رعایا کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے حکام اور عمال کو اس لئے نہیں بھیجا کہ وہ تم پر سختی کریں ،ماریں اور تمہارے مال چھین لیں (بلکہ وہ صرف ضابطہ کے مطابق اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے والے اور زکوٰۃ وصول کرنے والے ہیں) اگر کوئی ایسی زیادتی کرے تو لوگوں کو چاہئے کہ وہ معاملہ میرے روبرو پیش کریں، تاکہ میں ان سے بدلہ لوں۔ اس پر حضرت عمر وبن العاصؓ نے عرض کیا کہ اگر کوئی حاکم تنبیہ و تادیب کے لئے رعیت کے کسی آدمی پر ہاتھ اٹھائے تو کیا آپ اس سے بھی قصاص لیں گے؟ فرمایا: بے شک میں اس سے بھی قصاص لوں گا۔ پھر فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہؐ کو دیکھا کہ اپنے نفس تک کے بارے میں دوسروں کو بدلہ لینے کی پیشکش فرمائی۔ (رواہ ابوداؤد) یہی عدل و انصاف کا کامل نمونہ تھا، جس سے اسلام قلیل مدت میں مشرق سے مغرب تک پھیل گیا اور دنیا کی قومیں صدیوں پرانے اپنے مذہبی رشتے توڑ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئیں۔
رابطہ۔ 9797995330
[email protected]