تعلیم ایک ایسا عطیہ وتحفہ ہے جس کا مقصد انسان کو با اَخلاق اور اس کی سیرت سازی ہے۔علم ایک چراغ ہے جس سے انسان عمل کی منزل تک پہنچتا ہے۔علم و تعلم کا یہ مقدس اور اہمیت کا حامل فریضہ انسان کو جہاں ترقی کے منازل کو عبور کرنے میں معاون اور مددگار ہوتا ہے وہی اس پیشہ سے وابستہ افراد (استا اور شاگرد )کوآپس میں ادب و احترام، تواضع و انکساری اورایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کے ایک ایسے بندھن میں پروتا ہے کہ جہاں دونوں استاد اور شاگرد تعلیمی نظام کے دو اہم عنصر بن جاتے ہیں ۔استاد کی ذمہ د اری صرف سکھانا ہی نہیںبلکہ سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہیں ۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کے بارے میں فرمایا:’’وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیںاس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے ‘‘(سورۃ الجمعۃ آیت:2)۔اس لحاظ سے تعلیم و تربیت شیوہ ٔ پیغمبری ہے اور اس بنا پر یہ نہایت اہم فریضہ ہے۔اس فریضہ کو بحیثیت استاد احسن طریقہ سے انجام دینے اور بحیثیت شاگرد اس (علم)کے حصول کے لئے دونوں (استاد اور شاگرد)کا نیک نیت اور دل کا تمام برائیوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔یعنی دل حسد،بغض ،کینہ ،لالچ ،عداوت ، دھونکہ وغیرہ سے پاک و صاف ہوجس کے اثرات پورے جسم وجان پر مرتب ہوں۔ جب دل تمام برائیوں سے پاک ہوگا تو پورا جسم اس کامظہر رہتا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوگا سارا بدن درست ہوگااور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا ۔سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے‘‘ (صحیح البخاريکتاب الاِیمان باب فضل من اِستبراٌ لدینہ ،ح:52)۔عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’(حصول علم کے لئے)پہلی چیز نیت کا صحیح ہونا،پھر(اُستاد کے پاس زانوئے ادب تہ کر کے)سننا،پھرسمجھنا،پھراس کو یاد کرنا،پھراس پر عمل کرنا،پھر اس کو دوسروں تک پہچانا‘‘ (جامع بیان العلم وفضلہ لعبد اللہ بن محمد بن عبد البر۔ج1 ص476 )۔اس اہمیت اور تقدس کے پیش نظر استاد اور شاگرد دونوں کو اپنی اپنی جگہ ذمہ داریاںہیںاور ان کو پورا کرنا دونوں کے فرائض میں شامل ہے۔اگر مفوضہ ذمہ داریوں کو اَحسن طریقہ سے پورا کیا جائے تو تعلیم و تعلم سے ترقی اور فوزوفلاح کے منازل حاصل کئے جاسکتے ہیں۔اس سلسلے میں کچھ حقوق استاد پر عائد ہوتے ہیںاور بعض حقوق شاگرد پر عائد ہوتے ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
شاگرد پر استاد کے حقوق
(1)استاد کا صحیح انتخاب:
حصول علم کے لئے طالب علم پر لازم ہے کہ وہ ایسے استاد کا انتخاب کرے جو اَخلاق وآداب،تقوی و خشیعت ،علم و حلم اور اوصاف و عادات میں دوسروں کے لئے نمونہ ہو۔کیونکہ طالب علم استاد سے صرف علم ہی نہیں بلکہ اَخلاق و آداب بھی سیکھتا ہے اسی لئے طالب علم پر ضروری ہے کہ وہ ایسے استاد کا انتخاب کرے جو نہ صرف اس کو علم کی دولت سے منور کرے بلکہ اس کے اَخلاق و آداب کو سنوارنے کا سبب بھی بنے اور طالب علم ہر اعتبار سے دوسروں کے لئے نمونہ ثابت ہوجائے۔مشہور تابعی محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’بے شک یہ علم(حدیث)دین ہے تو دیکھ کہ کس شخص سے تم اپنا دین حاصل کر رہے ہو‘‘ (صحیح مسلم في المقدمۃ باب اَن الاِسناد من الدین )۔امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:چار قسم کے لوگوں سے علم حاصل نہیں کرنا چاہئے۔
1:۔’’وہ ناداں جس کی نادانی واضح ہو‘‘
2۔’’وہ نفس پرست جو لوگوں کو اپنے نفس کی طرف دعوت دے‘‘
3:۔’’وہ شخص جو لوگوں کی باتوں میں جھوٹ بولنے میں مشہور ہو اگرچہ اللہ کے رسول ﷺکے متعلق جھوٹ نہ بولتا ہو‘‘
4:۔’’وہ صاحب فضیلت شخص جو یہ نہ جانتا ہو کہ وہ لوگوں کے متعلق کیا باتیں کر رہا ہے‘‘(جامع بیان العلم وفضلہ لعبد اللہ بن محمد بن عبد البر ، باب من یستحق أن یسمی فقیہا۔ج2 ص820 )
خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’طالب علم کو چاہئے کہ وہ ایسے استاد سے علم حاصل کرے جو دینداری،اَخلاق و عادات،صبر و حلم،رفق و تواضع ،حق گوئی،نرم طبیعت اوردیگر اوصاف حمیدہ سے متصف ہو‘‘۔(الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادي،باب اختیار الفقہاء الذین یُتَعَلَّمُ منہم،ج 2ص191)
(2)استاد کا ادب و احترام کرنا:
شاگرد پر یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے استاد کا احترام کرے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:(لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا)’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اورہمارے بڑوں کی توقیر واحترام نہ کرے‘‘(سنن الترمذيکتاب البروالصلۃ باب ماجاء في رحمۃ الصبیان۔ح:1919)۔بڑوں میں استاد بالاولیٰ شامل ہے۔ لہٰذا شاگرد پر لازم ہے کہ وہ استاد کا ادب واحترام کرے اور اس کی ادنی سی بے ادبی کا ارتکاب کرنے سے اجتناب کرے کیونکہ استادادب و احترام اور قدر ومنزلت میں والد کے برابر ہوتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’میں تمہارے لئے بمنزل والد ہو تمہیں تعلیم دیتا ہوں‘‘(سنن أبی داودکتاب الطہارۃ باب کراہیۃ استقبال القبلۃ عند قضاء الحاجۃ۔ح:8)۔استاد سے مغرورانہ اسلوب سے گفتگو کرنے ،اس کے سامنے بے ادبی وبے شائستگی سے بیٹھنے اوراس کے سامنے آواز بلند کرنے سے پرہیز کرنا استاد کے حقوق میں سے ہیں جن کی رعایت کرنا شاگرد پر لازم ہے۔
3))استاد کاحق پہچاننا:
اللہ تعالی نے ہرایک انسان کا حق متعین کیا ہے اور دوسرے کو وہ حق پورا کرنے کا مکلف ٹھرایا اور ان حقوق کو مراتب کے اعتبار سے پورا کرنے کا حکم کیا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے :’’ اور اس اللہ سے ڈروجس کے نام پرتم ایک دوسرے سے(حقوق)مانگتے ہو‘‘(سورۃ النساء آیت:1)۔ان حقوق کا تعلق چاہے زوجین کے مابین ہو یا والدین اور اولاد کے درمیان ہو یا رشتہ دار وں کے حقوق ہو یا مسلمانوں کے آپسی حقوق ہو یا ان حقوق کا تعلق انسانیت سے ہو یا استاد و شاگرد کے حقوق ہو۔استاد اور شاگرد کے باہمی حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کہ طالب علم اپنے استاد کا حق پہچانے اور استاد کی عظمت،قدرومنزلت،توقیر اور فضیلت کو تسلیم کر اسکا دفاع کرے۔اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے:’’جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے‘‘(صحیح البخاريکتاب الرقاق باب التواضع ،ح:6502)۔خطیب بغدادی، امام ابو حنیفہ اور امام شافعی سے رحمہم اللہ اجمعین بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :اگر با عمل فقہاء و علماء اللہ کے ولی نہیں ہے تو کوئی اللہ کا ولی نہیں ہو سکتا۔(الأخلاق الزکیۃ في آداب الطالب المرضیۃ لاحمد بن یوسف بن محمد ،ج1 ص157 )۔
پس طالب علم پر واجب ہے کہ استاد کا حق پہچانک کراس کی تعظیم و توقیر کرے اور استاد کو کسی قسم کی تکلیف نہ دے ۔امام نووی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:(طالب علم پر واجب ہے کہ وہ اپنے استاد کو احترام کی نگاہ سے دیکھے اور اس کی عظمت و وقار کو نہ بھولے نیز یہ ذہن میں رکھے کہ میرا استاد با صلاحیت اور میرے حق میں زیادہ نفع بخش ہے۔مزید فرماتے ہیں کہ اسلاف میں جب کوئی استاد کی خدمت میں جا تا تودعاء کرتا ’’اے اللہ مجھ سے میرے اُستاد کے عیوب پوشیدہ رکھ اور مجھے اس کے علم کی برکت سے محروم نہ کر‘‘ )۔(الأخلاق الزکیۃ في آداب الطالب المرضیۃ لاحمد بن یوسف بن محمد ،ج1 ص154 )۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(طالب علم تحصیل علم میں اپنی بادشاہت(مال ودولت)اورسُستی و کاہلی سے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا طالب علم تحصیل علم میں کامیاب ہے جس نے محنت و مشقت،علم کے راستے میں درپیش مشکلات کا سامنا اور علماء(اساتذہ) کی خدمت کی ) (المجموع شرح المھذب للنووي،ج1 ص35 )
4: تکبراور بڑائی سے اجتناب کرنا:
شاگرد اپنے اندر تواضع وانکساری کو پیدا کر تکبر سے اجتناب کرے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا(وَمَا تَوَاضَعَ أحَدٌ لِلّٰہ اِلّارَفَعَہُ اﷲُ )’’جو بندہ اللہ تعالی کے لئے عاجزی کرتاہے اللہ تعالی اس کا درجہ بلند کرتا ہے‘‘ (صحیح المسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب استحباب العفو والتواضع۔ح:2588)۔ہر معاملے میں تکبر اور غرور سے اجتناب کرنا عزت و کامیابی کا سبب ہے اور حصول علم کے لئے ان سے بچنا لازمی ہے۔امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’علم حاصل کرو،اس کے لئے سکینت اور وقار بھی سیکھو،جن سے علم حاصل ہو اور جنہیںسکھاتے ہو ان کے لئے بھی،تواضع اور عاجزی اختیار کرو جبر کرنے والے علماء مت بنو‘‘ (جامع بیان العلم وفضلہ۔ج 1/ص559)۔امام مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:’’متکبر اور شرمانے والاآدمی علم حاصل نہیں کرسکتا‘‘ (صحیح البخاريکتاب العلم باب الحیاء في العلم۔)۔
(5) اپنے اوقات تحصیل علم میں صرف کرنا :
طالب علم کوتحصیل علم کی خاطر استاد کی خدمت میں مناسب اوقات کا انتخاب کرنا اوراپنی عمر اور اوقات کا صحیح اور بر وقت استعمال کر کے ان کو تحصیل علم میں صرف کرنا چاہئے۔کیونکہ انسان کی زندگی کے لمحات جب اس سے جدا ہوتے ہیں تو ان کو دوبارہ حاصل کرنا ناممکن ہے ۔ لہذا اللہ تعالی کی طرف سے عطاکردہ اس (وقت ،عمر) نعمت کو صحیح استعمال کر کے علم کے نور سے اپنے آپ کو منور کرکے آخرت کی سرخروئی حاصل کرے۔اللہ کے آخری رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے :اس کی عمر کے بارے میںکہ اسے کن کاموں میں ختم کیا‘‘ (سنن الترمزي أبواب صفۃ القیامۃ والرقاق،باب في القیامۃ،ح:2417)۔جس عمر کے متعلق آخرت میںسوال کیا جائے گا اس عمر کو علم کے حصول میں صرف کرنا نہ صرف سعادت مندی کا ذریعہ ہے بلکہ علم میں برکت و اضافہ کا سبب بھی ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے: ’’علم ! جب تم اس علم کو سب کچھ دو گے یہ علم تمہیں اپنا کچھ حصہ دے گا‘‘ (الأخلاق الزکیۃ في آداب الطالب المرضیۃ ،ج1 ص134 )۔ پس طالب علم اپنے دن و رات کے اوقات کو تقسیم کر کے صحیح نظام بناکر ان کو تحصیل علم کے لئے صرف کرے اور اپنی زندگی کے باقی لمحات کو غنیمت جان کر اپنی ذات کو علم کے نور سے منور کرے۔
(6) استاد کی سرزنش پر صبرکارنا:
اِنسان کی زند گی اور صبر ، ان دونوں کا آپس میں بہت گہر ا ر بط ہے۔ ہر انسان کی زند گی میں وہ مواقع ضرور رونما ہو تے ہیں جب اس سے صبر کا مطا لبہ ہو تا ہے۔ صبر انسانی زند گی کو محیط ہے۔ انسان کی حالت جو بھی ہو صبر سے جدا تصور نہیں کی جا سکتی۔ کیو نکہ انسان کی زند گی میں وہ سب حا لات پیش آتے ہیں جن میں صبر کر نا نا گزیر بن جا تا ہے۔طالب علم کو تحصیل علم میں صبر کا مظاہرہ کرنا لازمی ہے کیونکہ تحصیل علم کا سفر مشکلات و مصائب سے پُر اور صبر کا متقاضی ہے۔ صبر طالب علم کا بہترین ہتھیار ہے جس سے وہ دنیا میںہر کسی مشکل کا سامنا کر سکتا ہے۔ یہ وہ صفت ہے جس سے دنیوی واخروی زینت حا صل ہو سکتی ہے۔ صبر پسند یدہ عادت، مر غوب خصلت، اچھے اخلاق کی آئینہ دار اچھے نتیجہ والی اور بے حد مفید چیز ہونے کے ساتھ تحصیل علم کا اہم اور بنیادی سبب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں (ذَللْتُ طالباً فعزَزْتُ مطْلوباً )’’میں نے علم کے راستے میں تکالیف کو برداشت کیا پس علم کی وجہ سے میں معزز ہوا‘‘ (أدب الد نیا والدین للماوردي ،ج1 ص67 )۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اِصْبرْ علَی مُرِّ الجَفَائِ مِنْ مُعلِّمِِ فَاِنَّ رَسُوبَ الْعِلْمِ فِي نَفَرَا تِہِ
وَمَنْ لَمْ یَذُقْ مُرَّ التَعَلُّمِ سَاعَۃً تَجَرَّعَ ذُلَّ الْجَھْلِ طُوْلَ حَیَا تِہِ
’’استاد کی سرزنش اور ڈانٹ پر صبر کرو بے شک علم میں پختگی استاد کی ڈانٹ سے ہی ہوتی ہے ۔جس نے ایک لمحہ بھی سیکھنے کی تکلیف نہیں دیکھی وہ زندگی بھر جہالت کی ذلت میںپڑا رہتا ہے ‘‘ (الأخلاق الزکیۃ في آداب الطالب المرضیۃ ،ج1 ص161 )۔ اللہ تعالی نے بھی قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ السلام اور خضر کا جو واقع بیان فرمایا اور جس میں موسی علیہ السلام نے خضرؑ سے تحصیل علم کی درخواست کی تو خضرؑ نے واپس جواب میں فرمایا : ’’اس نے کہا آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کر سکتے‘‘ ۔(سورۃ الکھف آیت:67)۔
(بقیہ اگلے جمعہ کے شمارےمیں ملاحظہ فرمائیں)