عمران بن رشید
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے’’ وَلَاتَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِھِی علمٌ‘‘یعنی کہ تم اُس چیز کے پیچھے مت پڑو جس کا تمہیں علم نہیں۔ یہ آیت سورہ بنی اسرائیل میں وارد ہوئی ہے۔اس آیت سے پتہ چلتاہے کہ اسلام علم اور دلائل پر مبنی دین ہے یہاں من گھڑت قصے کہانیوں کے لئے گنجائش ہے اور نہ ہی توہم پرستی کے لئے،چنانچہ امام بخاریؒ کا قول ہے ’’العلم قبل القول والعمل‘‘یعنی علم قول اور عمل سے پہلے ہے۔تحقیق اور غوروفکر اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں،یہ اپنے ماننے والوں کو بھی غور وفکر پر ابھارتا ہے اور نہ ماننے والوں کو بھی۔ چنانچہ قرآن میں آیا ہے ’’قُل سِیْروْا فِیْ الاٗرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰہُ یُنْشِئُی النَّشاَۃَ الْاٰخِرَۃَ اِنَّ اللّٰہَ عَلَی کُلِّ شَیئٍ قَدِیر‘‘یعنی کہہ دیجئے!زمین میں چل پھر کردیکھو تو سہی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداءِ پیدائش کی ،پھراللہ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔گویااسلام غوروفکر اور تفکر و تدّبُر کا دین ہے اوریہی چیز اسلام کی خاصیت ہے کیونکہ کہ غور وفکر اور تفکروتدّبُر پروہی چیز کھری اترتی ہے جو صحیح بھی ہو اور کامل بھی ،جس میں کسی طرح کی کوئی کجی ہو اور نہ کوئی نُقُص ۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام پر آج تک جتنے بھی اعتراضات اُٹھائے گئے اسلام نے ہر اعتراض کا مدلل اور اطمینان بخش جواب دیا جس سے اسلام کی حقانیت بدرجہ اتم ثابت ہوتی ہے۔وہ اعتراضات جو مشرکینِ عرب کی جانب سے اُٹھائے گئے تھے اُن سے صرفِ نظر بعد کے ادوار میں بھی شرپسند عناصر اسلام کو ہدفِ تنقید بناتے رہے۔ بالخصوص صلیبی جنگوں(Crusades) کے بعد اسلام کو جو چلینجز پیش آئے وہ پوری تاریخ میں اپنی نوعیت کے منفرد چلیجز تھے ۔ایک طرف حدیث کے ذخیرے پر تنقید شروع ہوئی جس کے چلتے انکارِ حدیث کا فتنہ پروان چڑھا،دوسری طرف یونانی فلسفہ نے مسلمانوں کا بیڑاغرق کیا ۔آگے چل کر جب سائنسی رجحان پروان چڑھا توسائنسی نظریات (Theories)کے زیرِ اثر بہت سے لوگ جو علم میں کوتاہ تھے،دین سے متنفر ہونے لگے حالانکہ سائنس کا میدان الگ ہے اور دین کامیدان الگ۔معاصر فتنوں کی اگر بات کریں تو ان میں الحاد(Atheism)اگے واد(Agnosticism)سیکولرازم(Secularism) وغیرہ سرِفہرست ہیں۔جس طرح ماضی کے فتنوں اور چلینجز کے علمائِ دین نے مدلل اور اطمینان بخش جوابات دئے ہیں ،عصرِحاضر کے فتنوں اور چلینجز کی بھی علماء نے لگام کسی ہے۔تقریر کے میدان سے صرفِ نظر علماء نے تحریر کے میدان میں اُتر کر ایسا تحقیقی کام انجام دیا ہے کہ ہر فتنہ پرورٹولہ ہاتھ مَلتا رہ گیا۔تصنیف و تالیف دراصل مسلمانوں کی قدیم میراث ہے،تاریخ کا مطالعہ کرنے والا ہر فرد مسلمانوں کی علمی اور ادبی خدمات سے بخوبی واقف ہے۔برادرم محمدیونس ڈارصاحب حفظہ اللہ کی تصنیف ’’اسلام اور جدید چلینجز‘‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس میں مصنف موصوف نے مسلمانوں کو درپیش جدید چلینجز کابھرپورجائزہ لیا ہے۔کتاب کے دیباچہ میں مولف نے لکھا ہے ’’یہ مواد دراصل معھدالدراسات الاسلامیہ والمعاصرہ چاڈورہ (IICS
Chadoora)میں سال ۲۰۲۴ء کے سمسٹر میں درساً طلباء کو پڑھایاگیا، مگر جب لیکچرز کے سلسلے کو کچھ مدت گزرگئی تو طلباء کی جانب سے مطالبہ ہونے لگا کی اس کو کتابی شکل دی جائے کیوں کہ اس طرح کے مضامین ہمارے دینی اداروں میں کم ہی پڑھائے جاتے ہیں۔‘‘(اسلام اور جدید چلینجز؍صفحہ 23)۔کتاب مسلمانوں کو درپیش جدیدچلینجز کے موضوع پر ترتیب دی گئی ہے جو ایک قدرے حَساس موضوع ہے ۔ کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے کافی محنت اور تحقیق کے بعد ہی اپنے قلم کو تحریک دی ہے اور اپنے خیالات کو صفحہ قرطاس پر اُتارا ہے ۔ الحاد(Atheism)اگے واد (Agnosticism) سیکولرازم (Secularism) اور فلسفہ (Philosophy)کتاب کے بنیادی موضوعات ہیں جن پر سیرحاصل بحث ہوئی ہے اور اسلام سے متعلق مختلف شبہات کا بخوبی ازالہ کیا گیا ہے۔مصنف نے اول ہر موضوع کا مختصر اور مدلل تعارف پیش کیا ہے جس کے بعد ہی موضوع کا تاریخی پسِ منظر اور مختلف سوالات کے جوابات قلم بند کئے ہیں۔ تھی ازم(Theism)کا تعارف دیتے ہوئے مولف لکھتے ہیں’’لفظ’تھی ازم ،لغوی اعتبار سے ایک یونانی لفظ Theos سے بنا ہے جس کا مطلب ہے ’خدا‘اور ismانگریزی زبان کا لاحقہ ہے جس کا اردو متبادل ’یت‘ہے۔ TheosاورIsmکو ملانے سے لفظ Theismوجود میں آیاجس کے معنی ہے خدا پر ایمان گویا تھی ازم سے مراد ہے کسی معبود،خدا یا الہ پر ایمان لانا۔‘‘(صفحہ؍ 56) ۔اسی طرح مصنف نے دیگر موضوعات کا بحسنِ خوبی تعارف دیا ہے ۔کتاب کی سب سے عمدہ اور منفرد خاصیت یہ ہے کہ اس کی زبان سلیس اور عام فہم ہے اور اندازِ بیاں میں روانی اور سلاست ہے جو ایک اچھے مصنف کی پہچان ہے۔کتاب چونکہ زیادہ تر اُن فتنوں اور چلینجز کا احاطہ کرتی ہے جن کی داغ بیل مغرب (West)میں پڑی ہے یا دوسرے الفاظ میں مستشرقین (Orientalists)کے ہاتھوں پڑی ہے، لہٰذا حسبِ ضرورت مصنف نے جگہ جگہ پر انگریزی زبان میں اقتباسات کو درج کیا ہے اور انگریزی کتابوں کا حوالہ بھی ساتھ ساتھ دیا ہے جس سے یہ چیز مترشّح ہوتی ہے کہ مصنف مغربی فکروفلسفہ سے بخوبی واقف ہیں۔بہرحال دین ِ اسلام پر موجودہ دورمیں جو اعتراضات اُٹھائے جاتے ہیں اُن میں سے چند ایک اعتراضات پر محمد یونس ڈار صاحب نے اس کتاب میں عمدہ گفتگوکی ہے اور مدلل انداز میں اِن اعتراضات کو بے بنیاد اور لایعنی ثابت کیاہےاور قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ منطقی جوابات سے بھی ان اعتراضات کارد کیا ہے۔ہمارانوجوان طبقہ جو قرآن و سنت سے دور،دینی فہم سے عاری ،مغربی فکرو فلسفہ اور سائنسی نظریات کے زیرِ سایہ پروان چڑھا ہے اُن کے لئے ایسی کتابیں یقیناًمشعلِ راہ ثابت ہوتی ہیں ۔
’’عصرِ حاضر کے نوجوانوں کی حالت قابلِ افسوس ہے،یہ دین کے اسرار ورموز سے بے گانہ ہوچکے ہیں اور موجودہ نظامِ تعلیم بھی ان کی روحانی تربیت سے قاصر ہے۔یہ نوجوان جسمانی سجاوٹ کی طرف تو خوب متوجہ ہیں جبکہ حقیقت میں ان کی روح تاریک ہے،بھلے ہی کے دماغ روشن ہوں۔ یہ تو زندگی کی لذت اور حقائق سے ناآشنا ہیں، یقین اور امید دونوں سے محروم بھی۔‘‘مغربی افکار نے تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کے قلوب و اذہان میں جو خلفشار پیدا کیا ہے وہ ہر حساس مسلمان پر واضح ہے، شائد یہی وجہ بنی ہے کہ محمد یونس ڈار نے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے ۔مصنف نے نوجوانوں کو براہِ راست adressکیاہے اور نوجوانوں میں ایک فکر بیدار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ جب سماج کا نوجوان طبقہ دینی شعور سے بے زار ہو تو سماج کے باقی طبقہ جات مٹھی بھر ریت کی طرح ادھر اُدھر بکھرکر رہ جائیں گے،بقول جافری جاسر(Geofferey Chaucer) ’’ if gold can rust what will then iron do‘‘یعنی جب سونا ہی زنگ آلوددہ ہوجائے تو لوہے سے کیا شکایت کریں۔
[email protected]