محمد تبارک حسین علیمی
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ حلال و حرام کا تصور اسلامی تعلیمات کا اہم جزو ہے، جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ حلال چیزوں کو اختیار کرنا اور حرام سے اجتناب نہ صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ انسان کی روحانی پاکیزگی، جسمانی صحت، اور سماجی انصاف کے قیام کا سبب بھی بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بار بار حلال کو اپنانے اور حرام سے بچنے کی تاکید کی ہے تاکہ انسان دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکے۔
حلال کا دائرہ صرف کھانے تک محدود نہیں بلکہ یہ کمائی، کاروبار، تعلقات، اور دیگر معاملات کو بھی شامل کرتا ہے۔ حرام بھی صرف ممنوعہ غذا یا اعمال تک محدود نہیں، بلکہ وہ تمام طریقے اور ذرائع جن سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی ہو، حرام کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات ہر مسلمان کو حلال و حرام کے احکام سے آگاہ رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔
حلال کی اہمیت : حلال چیزیں انسان کی زندگی میں سکون، روحانی پاکیزگی، اور برکت لاتی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘(البقرہ: 172)۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ نے انسان کے لیے پاکیزہ اور حلال چیزیں مہیا کی ہیں تاکہ وہ نہ صرف ان سے لطف اندوز ہو بلکہ ان کے لیے اللہ کا شکر بھی ادا کرے۔ حلال کھانے اور کمائی سے عبادات قبول ہوتی ہیں اور دل کو روحانی سکون ملتا ہے۔
حلال کا دائرہ وسیع ہے، جس میں اخلاقی اور مالی معاملات بھی شامل ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا:’’اللہ پاک ہے اور صرف پاکیزہ چیز کو قبول کرتا ہے۔‘‘ (مسلم)۔ یہ حدیث مسلمانوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ ان کی عبادات اور اعمال کی قبولیت حلال رزق اور پاکیزگی پر منحصر ہے۔
حرام کی ممانعت : حرام چیزیں انسان کی روح، جسم اور معاشرت پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: ’’حرام کیا گیا تم پر مردار، خون، سور کا گوشت اور وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔‘‘ (المائدہ: 3)۔ یہ اصول نہ صرف روحانی نقصان سے بچاتے ہیں بلکہ جسمانی اور معاشرتی صحت کے لیے بھی ضروری ہیں۔ اسی طرح سود، دھوکہ دہی اور دیگر حرام اعمال انسان کے سکون کو ختم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جو حرام سے پلا بڑھا ہو۔‘‘ (ترمذی)
حلال و حرام کے اصول :اسلام نے حلال و حرام کے درمیان واضح فرق رکھا ہے تاکہ انسان اچھے اور برے میں تمیز کر سکے۔ ان اصولوں کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے:
اللہ کا حکم:حلال و حرام کا اصل معیار اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات ہیں۔
مشتبہ امور سے بچنا: نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ جو ان سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔‘‘ (بخاری)
نقصان سے بچاؤ: حرام چیزیں وہ ہیں جو انسان یا معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوں، جیسا کہ شراب، سود، اور دھوکہ دہی۔
رزق کی پاکیزگی:حلال کمائی عبادات کی قبولیت کی شرط ہے، جبکہ حرام رزق انسان کی دعاؤں کو رد کر دیتا ہے۔
معاشرتی برائیاں اور ان کا سدباب :آج معاشرت میں سود، دھوکہ دہی، اور ناپ تول میں کمی جیسی برائیاں عام ہو چکی ہیں:
سود: سود کو اسلام میں سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ (البقرہ: 278۔279)۔سود کے خاتمے کے لیے اسلامی مالیاتی نظام اپنانا ضروری ہے۔
ناپ تول میں کمی:قرآن مجید میں فرمایا گیا:’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جب دوسروں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں، اور جب انہیں ناپ یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔‘‘ (المطففین: 1-3)
دھوکہ دہی:نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جس نے دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (مسلم)۔ دھوکہ دہی نہ صرف ذاتی نقصان کا باعث ہے بلکہ یہ معاشرتی بداعتمادی اور بگاڑ کو بھی فروغ دیتی ہے۔
حلال و حرام کے اصول اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہیں، جو انسان کو ہر شعبۂ زندگی میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ حلال چیزیں انسان کے لیے سکون، برکت اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہیں، جبکہ حرام چیزیں انسان کو روحانی و جسمانی نقصان کے ساتھ ساتھ اللہ کی ناراضگی کا سبب بناتی ہیں۔
ایک کامیاب اور مطمئن زندگی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان حلال کو اپنائے، حرام سے بچے اور مشتبہ امور سے اجتناب کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص حرام سے بچا اور حلال کو اپنایا، وہ کامیاب ہو گیا۔‘‘ (ترمذی)۔ یہی اصول دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہیں۔
[email protected]>