بنی آدم نسیان و خطاؤں کا مرکب ہے۔قدم قدم پر خطائیں سرزد ہونا بندوں کی صفت خاصہ ہے اور ان گناہوں کو بخش دینا رب تعالیٰ کی صفت اعلیٰ ہے۔نبی کریمؐ سید البشر و سید المرسلین ہیں لیکن آپ علیہ الصلوۃ والسلام بھی ایک دن میں سو مرتبہ اللہ کے حضور بخشش طلب کرتے۔گناہ سرزد ہوتے ہی توبہ و استغفار کرنا بندوں پر واجب ہے۔گناہ سرزد نہ بھی ہوں تب بھی اللہ کے دربار میں استغفار کرنا بندوں کے لئے ہی نفع بخش ہے۔استغفار کے دس عظیم فضائل کا تذکرہ اختصاراً آرہا ہے۔
(۱) حصول تقوی:علماء بیان کرتے ہیں کہ، ’’وجعل الله تعالى الاستغفار من صفات المتقين‘‘ یعنی استغفار طلب کرنا پرہیزگاروں کی صفت ممدوحہ ہے۔قلب و جوارح پر رب العزت کا خوف نافذ کرنا تقوٰی کہلاتا ہے۔حصول تقوی کے لئے استغفار کرنا لازمی امر ہے۔
(۲)حصول برکت:علماء رقمطراز ہیں کہ ’’الاستغفار يكون سببًا بالإمداد بالأموال والبنين‘‘ یعنی استغفار طلب کرنا اموال و اولاد کی برکت کے اسباب میں ایک عظیم سبب ہے۔سورہ نوح میں اللہ عزوجل نے استغفار کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِين‘‘ جس کا مفہوم یہی ہے کہ اموال و اولاد میں برکت کے لئے رب کے حضور استغفار کرنا نہایت ہی مؤثر رہتا ہے۔
(۳) حصول حیات طیبہ:اطمینان بھری زندگی گزارنے کے لئے، پرسکون اور پروقار زندگی گزارنے کے لئے استغفار کثرت سے کرنا نہایت ہی مفید ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ ’’وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا‘‘(سورہ ھود) یعنی اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو تاکہ تمہیں ایک وقت مقرر تک اچھا فائدہ پہنچائے۔
(۴) حصول مدح باری:استغفار کرنے والے ان سعادت مند افراد میں شامل ہوجاتے ہیں جن کی مدح خود اللہ تعالیٰ کرتا ہے اور یقیناً یہ سب سے خوش قسمت لوگ ہیں۔اللہ رب العباد اپنے مقرب بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ، ’’وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالأَسْحَارِ‘‘رات کے آخری حصہ میں استغفار کرنے والے رب کی مدح و ثناخوانی کے حقدار بن جاتے ہیں۔
(۵) حصول مغفرت:ہمارا مقصد حیات رب العزت کی بندگی ہے۔یہ مقصد ہورا ہوتے ہی ہمیں وہ حیات مبارکہ ملے گی جو لافانی اور ابدی ہے۔ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے۔ لیکن حیات اخروی میں اعلیٰ درجات حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے گناہوں کی مغفرت کروانی ہے اور مغفرت تب ملے گی جب اللہ عزوجل کے دربار میں ہم کثرت سے استغفار کریں گے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ، ’’وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا‘‘(القرآن) یعنی جو بندہ بھی گناہ کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے، وہ اللہ تعالیٰ کو بڑا ہی رحیم اور مغفرت کرنے والا پائے گا۔
(۶) دفع بلاء:پریشانیوں، مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے استغفار بڑا ہی عمدہ وظیفہ ہے۔استغفار میں دلوں کا سکون، روح کا آرام ہے۔ بے چینی، بے قراری، ذہنی تناؤ سے خود کو آزاد کرنے کے لئے استغفار کرنا یقیناً نسخہ کیمیا ہے۔سورہ نوح میں ہی رب کائنات قحط سالی سے بچنے کے لئے قوم نوح کو بخشش طلب کرنے کی تلقین کی۔ایک عربی شاعر اپنے ابیات میں کہتا ہے کہ،
(ترجمہ:)اپنے آپکو صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بھی بچا، یہی تقوی ہے۔ جس طرح کانٹوں کے راستے پر چلنے والا بڑے محتاط طریقہ سے قدم اٹھاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گناہوں کو حقیر نہ سمجھ کیونکہ بڑے بڑے پہاڑ چھوٹی چھوٹی چٹانوں سے ہی بنتے ہیں۔
(۷) حصول رحمت خداوندی:رحمت الہٰی نعمت باری ہے۔ روئے ارض پر رحمت الٰہی کا نزول سبھی آلام و مصائب کو مٹا کے رکھ دے گا۔فتنہ و فسادات نے آج پوری کائنات کو بکھیر کے رکھ دیا ہے۔ امن و سکون، سلامتی و شانتی کے لئے استغفار کرنا لازمی ہے۔ جیسا کہ رب العزت نے فرمایا،’’لَوْلا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ‘‘(القرآن)
(۸) عذاب الٰہی سے نجات:ہماری معصیت کی وجہ سے، ہمارے کردار بد کی وجہ سے عذاب الہی مسلسل ہم پر نازل ہورہے ہیں۔ سیاسی بحران، فضائی بحران، زمینی حالات اس بات کی عکاسی کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے سخت ناراض ہے۔فحاشی، عریانی، کبائر جرائم، منشیات کی گندگی ہمارے معاشرے کو آلودہ کرچکے ہیں۔ دنیا پرستی اور دین بیزاری چاروں طرف نظر آرہی ہے۔ بنی آدم نے خالق کائنات کی بندگی ترک کرکے مخلوق کی غلامی تسلیم کرلی ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ جسم و روح کو پاک کرکے، خلوت و جلوت کو مزین کرکے، انفرادی و اجتماعی زندگی تبدیل کرکے، اللہ کی طرف رجوع کرنے استغفار کریں تاکہ ہمارے حال پر رحم کیا جائے۔جیسا کہ فرمان ربانی ہے کہ ’’وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ‘‘(القرآن)
(۹) کثرت استغفار سنت مرسلین ہے:انبیاء کرام علیھم السلام کی مشترکہ سنت مبارکہ ہے کہ وہ کثرت سے استغفار کرنے والے تھے۔سورۃ الاعراف میں سیدنا آدم کی توبہ، سورہ نوح میں سیدنا نوح کی توبہ، سورۃ القصص میں سیدنا موسیٰ کی توبہ وغیرھم کا تذکرہ ملتا ہے۔فرمان نبوی ؐ ہے کہ، ’’طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا‘‘(سنن ابن ماجہ) نوجوان ملت کو بھی چاہئے کہ اس سنت مطہرہ پر عمل کریں۔ مسائل کتنے بھی کٹھن کیوں نہ ہو،استغفار کرنا دواء شافی کا کام کرتا ہے۔ فرمان نبوی ؐ ہے کہ ’’مَنْ لَزِمَ الاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللهُ لَهُ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَمِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِب‘‘(سنن ابی داوُد) یعنی جو پابندی سے استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر فکر سے کشادگی اور ہر تنگی سے راستہ بنا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی(بعض محدثین نے سند پر کلام کیا ہے)
(۱۰) روحانی تربیت:خلوت کے گناہ روح کو بیمار کردیتے ہیں۔ خلوت کے مجرم اپنے قلوب کو مردہ کردیتے ہیں۔ روحانی پاکیزگی، تزکیہ نفس، تطہیر نفس کے کثرت استغفار لازمی ہے۔یہ استغفار لساب، قلب اور جوارح سے ادا کیا جائے، زبان بحیثیت ترجمان اپنا کام کرے۔جوانی میں توبہ کرنا مرسلین کا طریقہ کار رہا ہے۔فرمان نبوی ؐ ہے کہ ’’اِنَّ اللہَ تَعَالٰی یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ النَّہَارِ،ویَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّہَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ اللَّیْلِ،حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا‘‘ (صحیح مسلم) ترجمہ:اللہ تعالیٰ رات بھر اپنا دستِ رَحمت پھیلائے رکھتاہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن بھر اپنا دستِ رَحمت پھیلائے رکھتاہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرے ،یہ کرم نوازی اس وقت تک ہو تی رہے گی جب تک کے سورج مغرب سے طُلوع نہ ہو۔
شیخ سعدی کا فرمان ہے کہ ’’جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں ہی کا شیوہ ہے،بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار ہوجاتا ہے‘‘۔ ان نصائح پر عمل کرکے نوجوان ملت قلبی اطمینان، روحانی سکون حاصل کرسکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ شباب ملت سلف صالحین کی سیرت پر عمل کرکے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ علم نافع کے ساتھ عمل صالح کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
(مدرس:سلفیہ مسلم ہائر سکینڈری پرے پورہ،رابطہ۔:6005465614)
���������