! استاد کی عظمت کوبحال کیا جائے حق گوئی

رشید الحسن راتھر ،شوپیان

اس سال بھی ہر سال کی طرح رواں ماہ کی پانچ تاریخ کوملک میں یوم اساتذہ منایا گیا ۔اس روز مختلف جلسے اور مباحثے استاد کے بارے میں ہوتے رہے، جس کا مقصد اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔اسی روز ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنا کا جنم دن بھی ہوتا ہے،جس کے مدنظر اس دن کو پورے ملک میں یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔رادھا کرشنا خود بھی استاد رہ چکے ہیں اور استاد کی بہتری کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔

استاد کی عظمت کے بارے میں کیا یہ خراج تحسین کم ہے کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسیم نے اپنے بارے میں فرمایا کہ’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔‘‘ معلم اپنے پاس کا علم طالب علموں میں منتقل کرتا ہے۔استاد کو معمار قوم کہا گیا ہے کیونکہ وہ کلاس روموں میں مستقبل کی تعمیر کرتا ہے۔والدین بچے کے دنیا میں آنے کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن اسے بہترین طریقے سے زندگی گزارنے اور جینے کا سلیقہ تو استاد ہی سکھاتے ہیں۔علامہ اقبال ایک فارسی شعر میں استاد کی تربیت کو یوں بیان کرتے ہیں :

تو آں شاہ کہ محل بر قصرت
کبوتر گر نشیند،باز گردی

ترجمہ:اے استاد محترم!آپ وہ ہستی ہیں کہ آپ کے محل پر اگر کبوتر آکر بیٹھ جائے تو جب آڑے گا وہ کبوتر نہیں ہوگا بلکہ باز ہوگا۔
ہمارے ملک میں ہر سال اس روز بہت سے پروگرام اساتذہ کی عظمت کے بارے میں منعقد کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں پھر بھی استاد کو صحیح مقام نہیں مل پا رہا ہے۔آج ہمارے ہاں استاد کی قدر مزدور سے بھی کم تر ہوگئی ہے۔آج بیشتر پرائیویٹ اسکولوں میں ایک استاد کی ماہانہ تنخواہ سات سے بارہ ہزار روپے تک ہے،جس سے استاد کی اپنی ضروریات بھی پوری نہیں ہو پاتی ہیں تو وہ باقی افراد خانہ کا کیا کرے۔

یورپی ممالک کا حال ہم سے بہت مختلف ہے۔وہاں استاد کو بہت زیادہ عزت ملتی ہے۔جج،وکیل، بزنس مین حتی کہ سیاسی لیڈر بھی ان کے لیے فرش راہ بچھاتے ہیں۔وہ جہاں بھی جائیں انہیں ہر جگہ عزت ملتی ہے،مگر ہمارے کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کلاس روموں میں جا کر طلبہ سے کہیے کہ آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے ان میں سے بیشتر کے جواب آپ کو ڈاکٹر، انجینئر یا آئی۔اے۔آفیسر کی صورت میں ملیں گے۔کوئی بچہ آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ میں استاد بنوں گا۔اس لئے کہ اسے پتہ ہے کہ ہمارے ہاں کا پی ایچ ڈی ہولڈر بھی دردمند ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ کسی پرائیویٹ سکول میں چند ہزار کے عوض کام کر رہا ہے۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ کی شان میں قصیدہ پڑھنے کے بجائے ان کے جائز حقوق پورے کئے جائیں تاکہ وہ بھی معاشرے میں امن و سکوں کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
[email protected]
��������������