سیدہ عطیہ تبسم
’’میرے گھر کا انٹیریر ڈیزائن (interior design)ذرا بھی اچھا نہیں ہے ۔میرے والدین مجھے سمجھتے ہی نہیں ہیں ۔وہ مجھے ڈیزرو (deserve) ہی نہیں کرتے ہیں۔ مجھے اس یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہی نہیں لینی تھی۔ یہ زندگی بالکل بھی میری چوائس کی نہیں ہے۔ یہ لائف سٹائل تو مجھے سوٹ(suit) ہی نہیں کرتا ہے یا اللہ مجھے یہاں کیوں پیدا کیا؟ ‘‘
اس طرح کے ہزاروں جملے کہتے ہوئے ہماری زبان کبھی کتراتی نہیں ہے۔ بس ہم ایک شکوے کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ شاید یہ ’’اگر‘‘ اور ’’کاش‘‘ کا تسلسل انسانی زندگی میں ازل سے رہا ہے۔ ابتدا سے اس کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ ہر شئے کو اپنے اختیار میں لانا چاہتا ہے۔ وہ اپنی زندگی اور خود سے جڑی ہر چیز کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ اس کے والدین اس کی چاہت کے مطابق ہونی چاہیے۔ اس کی زندگی سے منسلک ہر شخص اس کے مزاج کے مطابق ہونا چاہئے۔ ایک طالب علم چاہتا ہے کہ تعلیمی نظام اس کی مرضی سے چلے۔ ایک بزنس مین چاہتا ہے کہ کاروبار کا ہر اصول اس سے پوچھ کر بنایا جائے۔ ایک خاتون چاہتی ہے کہ گھر کا پورا نظام اس کے مطابق ہونا چاہئے۔ مختصراً یہاں ہر شخص اپنی زندگی کو اون(own) کرنا چاہتا ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ خود کو اپنا ہمدرد سمجھتا ہے اور خود سے زیادہ خیر خواہی کی توقع کسی دوسرے سے نہیں کر پاتا ہے ۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہر کسی کی منشا اور چاہت سے یہ دنیا چل نہیں سکتی ہے کیونکہ ہر شخص کو اپنا مفاد مدِنظر ہوتا ہے دوسرے کا نقصان نہیں۔ یہاں تو کوئی ایسا ہونا چاہیے جو سب کا خیر خواہ ہونے کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کو اون (own) کرتا ہو اور کنٹرول(control) بھی اور وہ ذات فقط رب العزت کی ہے۔
صرف اس کی ذات کو مکمل علم ہے کہ بندے کے لئے خیر کیا ہے اور شر کیا ہے۔انسان کی بصیرت اتنی بلند نہیں کہ وہ اپنی خواہشات سے جڑے خیر و شر کو پہچان سکے۔ انسان چاہ کر بھی اپنے تمام معاملات کو کنٹرول نہیں کر سکتا ۔ یہ اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ کون ہے جو اپنے والدین کو چننے کی قدرت رکھتا ہوں ۔کون ہے جو اپنی موت و حیات کا وقت مقرر کر سکتا ہے۔ کوئی بھی نہیں۔ جب ہر چیز کو کنٹرول کرنا ہمارے بس میں ہی نہیں ہیں تو کیوں ہم خود کو تھکا دیتے ہیں کسی ایسی خواہش کے پیچھے جو اگر پوری ہو بھی جائے تو کسے پتا اس میں خیر پنہاں ہے یا شر۔ ہمارا کام تو بس کوشش کرنا ہے ، شکوے کرنا نہیں۔ اگر کوشش کامیاب ہو تو سجدے شکر ادا کرنا اور اگر نہ ہو تو بھی صبر کا سجدہ ادا کرنا بندے کا فرض ہے۔
جب چیزیں ہمارے اختیار سے باہر ہوں تو جھک جائیں، ضد چھوڑ دیں اور پرسکون ہوجائیں کیونکہ ہم بے اختیار ہوتے ہیں ہمارا رب نہیں۔ ہاں کبھی کبھی خواہشات سے ہجرت کرنا مشکل ضرور ہوتا ہے، مگر رب مہاجرین کا قدردان ہے۔تاریخ گواہ ہے اس نے ہر ہمیشہ مہاجرین کو نصرت اور تسکین سے نوازا ہے۔ وہ بہتے پانی میں سے راستے نکالتا ہے۔ وہ مچھلی کے پیٹ میں بھی پالنا جانتا ہے۔ مسئلہ نہ اختیار کا ہے نہ بے اختیاری کا، مسئلہ تو بس یقین کا ہے اور ایمان کا۔ ایمان فقط روزہ اور نماز کا نام تو نہیں، ایمان تو اپنی ہر بے بسی اور بےاختیاری کو رب کے سپرد کر کے پر سکون ہو جانے کا نام ہے۔
کبھی کبھی ہم سارے حربے آزما کر بھی چیزوں کو اپنے مطابق نہیں کر پاتے اور کبھی کبھی بغیر کوشش کیے بھی تمام چیزیں ہماری مطابق ہو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہماری کوششیں اور محنتیں رائیگاں ہو جاتی ہیں۔ پھر بہت جلد ہم یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں کہ شاید قدر لکھنے والا کوئی ظالم اور جابر بادشاہ ہے، جس نے ہر اختیار اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور مجھے بے بسی اور بے اختیاری کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ جب اس طرح کے خیالات بے چین کریں تو چند لمحات کے لیے اپنی نگاہوں سے ماضی کا تعاقب کریں ۔ پھر ماضی کی کسی اذیت ناک واقعہ کو یاد کریں جس نے آپ کو کبھی رلایا تھا، ستایا تھا اور بے بسی کا احساس دلایا تھا۔ مثلاً کوئی شخص جو دل کے بہت قریب تھا مگر وقت کے جبر نے آپ سے اس کو چھین لیا، کوئی خواب جو بے حد د قیمتی تھا پر ٹوٹ گیا، کوئی خواہش جو آپ کی زندگی تھی پر بکھر گئی، کوئی سہارا جس کے بنا زندگی گزارنے کا تصور بھی ناممکن تھا مگر چھوٹ گیا، کوئی تہمت یا الزام جو بالکل بے بنیاد تھا مگر آپ کی ذلت کا باعث بن گیا، کوئی حادثہ جس نے کبھی آپ سے آپ کا سب کچھ چھین لیا تھا۔
پھر پر سکون ہو کر سوچیں کہ اس بدترین واقعہ نے کس طرح سے آپ کو ایک بہترین انسان بننے میں مدد دی۔ وہ واقع دراصل آپ کی گروتھ کے لیے نہایت ضروری تھا۔ اس کو ہونا تھا سو وہ ہو گیا۔ اس کا ہونا قدر اللہ میں شامل تھا جسے نہ آپ روک سکتے تھے نہ کوئی دوسرا ۔ یاد رکھیں قدراللہ لکھنے والا وہ ہے جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ ایسا لکھے جو شر کا باعث بنے۔ ہاں وقتی طور وہ ہماری نظر میں شہر ہو سکتا ہے مگر دراصل وہ خیر ہی خیر ہے جس کا تعاقب ہماری نگاہیں نہیں کر سکتی کیونکہ ان کی اپنی لمیٹیشنز limitations ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی عقل اور ذہانت پر بھروسہ کرنے کے بجائے اس ذات پر بھروسہ کریں ،جس کے لئے غیراختیاری دنیا کی کوئی شے نہیں ہے۔ اس ذات پر اعتبار ہی زندگی کی ہر بے رخی اور بے بسی کا واحد علاج ہے۔
[email protected]