اختلاف رائے میں کوئی حرج نہیں،اعتدال برقرار رکھیں

آج کی دنیا میں اظہار رائے اورا ختلا ف رائے بنیادی انسانی حقوق تصور کئے جاتے ہیں اور ان حقوق پر کسی طرح کا قدغن انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ حق شروع سے ہی نزاع کا سبب بنا ہوا ہے۔ کسی معاشرے میں اختلاف رائے کا ہونا اس معاشرے میں زندہ انسانوں کے وجود کا ثبوت ہے۔ اختلاف رائے انسانی ذہن کے دریچوں کو کھولتا ہے اور اندازِفکر میں وسعت پیدا کرتا ہے۔ تاہم جہاں اختلاف رائے معاشرے کیلئے سود مند ہے وہیں آج کل کے معاشروں میں اختلاف رائے بگاڑ بھی پیدا کر رہا ہے اور اس کی سیدھی وجہ وہ رویے ہیں جو کسی صورت میں بھی کسی دوسری رائے کو سننا پسند نہیں کرتے اور اپنی بات کی صداقت کو ثابت کرنے میں انتہاء پسندی کی حد تک چلے جاتے ہیں جو معاشرے کی اخلاقی فضا کو آلودہ کرتی ہے۔
دنیا کا ہرانسان ایک ہی طرح کے افکار ونظریات کا حامل نہیں ہوسکتا۔ یہاں مختلف افکار، نظریات اور تخیلات رکھنے والے انسان بستے ہیں، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہرانسان دوسرے انسان کی ہربات اور ہر خیال سے متفق ہو۔ دوسروں کی ہر بات کو من و عن تسلیم کرلینا اور اس پر اپنی کوئی رائے نہ دیناجمود کی علامت ہے۔ جہاں بھی کوئی بات حتمی نہیں ہوگی تووہاںنظریات و افکار میں اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہوگی۔ مختلف افراد ان افکارونظریات کومختلف نظروں سے دیکھیں گے تو وہاں اختلاف رائے کا ہونا ایک ضروری امرہوتاہے۔ پس اختلاف اگراخلاص اور اخلاق کے دائرے کے اندر رہ کر کیاجائے، تو مستحن ہے اور جب اختلاف کا مقصد صرف دوسروں کی تذلیل اور اپنی برتری ثابت کرناہوتو یہ ایک قابل مذمت اور برا فعل بن جاتاہے۔
دانشور اختلاف رائے کو جمہوریت کاحسن قرار دیتے ہیں اور یہ صحیح بھی ہے کہ اختلاف رائے سے ہی اصلاح احوال کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اختلاف اور اظہار رائے جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں۔ملک و معاشر ہ کی فکری، عملی، نظریاتی و مادی نشوونما اور فروغ کیلئے ضروری ہے کہ افکار و نظریات اور خیالات کا آزادنہ بہائو ہو، تحقیق و جستجو کا ماحول ہو، لوگ بے خوف اور بے لاگ ہوکر نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کریںبلکہ دوسروں سے اختلاف رائے کا حق بھی انہیں حاصل ہو۔ اختلاف رائے کے بطن سے ہی دوسری آزادیاں نکلتی ہیں جنہیں جمہوریت کا ثمرہ کہاجاسکتا ہے۔ انتخابی عمل بھی اختلاف رائے اور اظہار رائے کی ہی ایک شکل ہے جس کا سہارا لے کر ایک طبقہ حکومت میں آتا ہے لیکن حکومت ملنے کے بعدیہ طبقہ خود کو اختلاف سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ اظہار رائے اور اختلاف کواگرختم کردیاگیا تو نہ جمہوریت رہ پائے گی، نہ انتخاب ہوں گے اور نہ ہی معاشرہ کی ترقی و نشوونما کا تسلسل برقرار رہ سکتا ہے۔جمہوریت کے استحکام کیلئے بھی لازم ہے کہ حکمرانوں کی غلط کاریوں پر گرفت کیلئے عوام میں کوئی خوف نہ ہو۔ عوام بے باک ہوکر حکومت کی کسی پالیسی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اور اس سے اختلاف کرسکیں۔
انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے عقل، شعور اور ذہن جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا ہے۔ لہٰذا مختلف معاملات میں مختلف لوگوں کا مختلف زوایہ نگاہ ہونا عین فطرت ہے۔ انسان کوئی مشین نہیں جو ایک ہی کمانڈ پر کام کرے بلکہ عقل و شعور ہر انسان میں رکھ دی گئی ہے۔ انسان جس طرح اپنے جسمانی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، بالکل اسی طرح مختلف لوگ شعوری اور ذہنی اعتبار سے بھی مختلف ہیں۔ کسی کو اللہ نے کمال فطانت اور معاملہ فہمی سے نوازا ہے تو کسی کو اس درجے کی سمجھ عطا نہیں کی۔دوسروں کی آراء اور اختلافات کو برداشت کرنا ہماری اخلاقی، آئینی اور مذہبی ذمہ داری ہے۔
 اختلاف رائے کو معاشرے کی ترقی میں بھی خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے اور ہماری تنزلی کی ایک وجہ شاید ہماری یہی عدم برداشت بھی ہے۔ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کا رویہ ناقابل یقین حد تک بڑھ چکا ہے۔ آپس میں رائے کا اختلاف مخالفت کا روپ دھارچکا ہے۔ نفرت کا جذبہ اتنا عام ہوچکاہے کہ اپنے مدِمقابل کی دلیل سنے بغیرہم اس کے غلط ہونے کا فیصلہ سنادیتے ہیں۔ تحمل، برداشت اوررواداری اب ناپید ہوچکی ہیں۔صحیح معنوں میں برداشت دوسروں کو سمجھنے سے شروع ہوتی ہے۔ دوسروں کا موقف سمجھنے کا یہ مطلب ہے کہ آ پ کو یہ احساس ہے کہ دوسرے کیسے آپ سے مختلف سوچتے ہیں۔ احترام پر مبنی بحث ومباحثہ جس میں تنقید بھی شامل ہو، بہترین طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے نظریاتی اختلاف کو حل کرسکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ مثبت تنقید اختلاف کو ختم کرے اور نتیجہ باہمی رضامندی ہو تاہم یہ دونوں جانب مسئلہ کو سمجھنے میں مفید ثابت ہوتاہے۔مکالمہ اور بحث زندہ معاشرے کی پہچان ہے۔ اختلاف یا اتفاق اس کا لازمی نتیجہ ہوتاہے۔ مثبت تنقیداصلاح کا ذریعہ اورنئی تحقیق کی بنیاد ہوتی ہے۔ اختلاف اور مخالفت دونوں مختلف مفہوم رکھتے ہیں اگرچہ لغت میں یہ گنجائش ہے کہ بعض صورتوں میں دونوں کوایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکے اور ہمارے ہاں بات چیت میں ایسا اکثر ہوتا بھی ہے۔ مگرعام طور پر اختلاف وہاں کیا جاتاہے جہاں دو مختلف آراء کی گنجائش ہوجبکہ مخالفت عموماً تعصب اور عناد کی وجہ سے کی جاتی ہے۔
ہمارے لئے تشویش کا باعث یہ ہے کہ ہم نے اختلافات کو آپس میں خلط ملط کر دیا اور سبھی کو ایک خودساختہ ترازو میں تولنے لگے۔ قبول و رد کا ہم نے اپنا ایک الگ معیار طے کرلیا ہے اور اسی پر اختلاف کو پرکھنے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے درمیان بے حد دوریاں پیدا ہوگئیں۔ ہر ایک باہم برسر پیکار نظر آنے لگا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ زبانیں بے لگام ہو گئیں،قلم بے قابو ہو گئے اور دبے پاؤں ہمارے اختلاف میں عصبیت، ذاتی مفاد، انانیت اور بے جا ضد نے جگہ لے لی اور اس طرح ہم صالح اختلاف سے محروم ہوگئے اور بے روح اختلاف کی وجہ سے ہمارے بہت سے اختلافات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔
یہ بات بجا ہے کہ اختلاف ناگزیر ہے لیکن اس کیلئے کچھ اصول و شرائط ہیں جن کا پاس و لحاظ بھی ضروری ہے۔ ہمیں رائے قائم کرنے میں انتہائی محتاط انداز اختیار کرلینا چاہئے ۔اختلافِ رائے کے اظہار سے پہلے کھلے ذہن کے ساتھ اپنی رائے پر پہلے خود غور کرلیں کہ کہیں میں غلطی پر تو نہیں ؟ پھر اگر اپنی رائے غلط ثابت ہوتو اندر کی بات کو اندر ہی ختم کر ڈالیں اور قلبی سکون پائیں۔ اگر آپ کو اپنی رائے دْرست لگے تو دیکھ لیجئے کہ اس کا اظہار ضروری بھی ہے یا نہیں؟کیونکہ ہر اختلافِ رائے کا اظہار ضروری نہیں ہوتا بالخصوص ایسی جگہ پر جہاں خاموش رہنے میں کوئی نقصان بھی نہ ہورہا ہو ۔ہرجگہ اختلافِ رائے کا حق جتاکر بحث ومباحث میں نہ کودیں کیونکہ بن مانگے اپنی رائے دینے سے قدرو قیمت جاتی رہتی ہے ، اس لئے حتی الامکان پوچھے جانے پر ہی اپنی رائے دیں۔دوسروں کے اختلافِ رائے کے حق کو بھی تسلیم کریں ، بحث کرکے انہی کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور نہ کریں بلکہ گفتگو کے نتیجے میں آپ پر اپنی رائے کی غلطی ظاہر ہو تو اسے دْرست کرکے بڑے پن کا مظاہرہ کیجئے۔اگر آپ کی رائے کو فوقیت مل جائے تو شیخیاں نہ بگھاریں کہ دیکھا میں نے اسے کیسے خاموش کروایا ، میرے سامنے تو بڑے بڑے خاموش ہو جاتے ہیں۔ آپ غالب ہوں یا مغلوب! دونوں صورتوں میں فریقِ ثانی کی غیبتوں میں نہ پڑیں ، اس پر تہمتیں نہ لگائیں اور نہ ہی اپنے دل میں اس کا بغض بٹھائیں۔اختلاف رائے کسی سے بھی ہو! اس کے نتیجے میں آپسی تعلقات میں کھنچاؤ نہ آنے دیں۔ 
یاد رکھیں کہ ہر نیا خیال نئی دنیا کا دروازہ کھولتا ہے۔ خیال پر پابندی ہوتو سماج ٹھہر جاتا ہے۔ انسانی ترقی ، انصاف اور امن کی برکھا ایسے بنجر ٹیلوں پر نہیں برستی جہاں نئے خیالات اور پْر امن اختلاف رائے کے بیج نہ بوئے جائیں۔