وہ آئے جن کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی
وہ آئےجس کی آمد کے لیے بے چین فطرت تھی
اللہ تعالی کا بے حد حمد وثنا کہ جس نے ہمیں مسلمان بنا کر اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مبعوث فرمایا جوکہ پورے عالمین کیلئےرحمت بن کر آئے ۔ اللہ تعالی کافرمان ہے کہ میں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا والوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ جب دنیا تاریکیوں میں گم ہوکر اپنا راہ راستہ بھول گئی تھی اور تمام خرابیوں ،بُرائیوں اور شرکیات کے دلدل میں لت پَت تھی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدنے پوری دنیا کوروشنی سے منور کر دیا۔ آپؐنے عرب کی اُن برائیوں کی جڑ مٹا دی،جن سے انسانیت شرمسار تھی اور انسان کی زندگی میں نظم و ضبط کا نام و نشان تک مٹ چکا تھا ۔بُت پرستی میں مبتلا انسان من مرضی کا مالک بن چکا تھا لیکن جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم اس روئے زمین پہ پڑے توآپؐ نے ہر ایک چیز کو پاکیزہ کردیا ۔آپ ؐکی بعثت سے پورے عالمین میں انقلاب برپا ہوا ۔ زندگی کے ہر شعبے میںوہ انقلاب لایا جو بھی تا قیامت جاری رہے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ ہی دین مکمل ہوگیا اورآپ ؐ امام المرسلین اور خاتم النبیین ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سادہ اور نرم دل تھے ، یتیموں کے والی ،بے سہاروں کا سہارا ،غم زدوں کے غم خار تھے ۔خود بھوکے رہتے تھے لیکن دوسروں کو کھلاتے تھے ۔غرض آپؐ اخلاق حسنہ پر فائز تھے ۔آپؐنے جب اعلان نبوت کیا تو دشمن اسپر حسد کرنے لگے اور ان پر ہر طرح کے ظلم اور سازشیں کرنے لگے ،چنانچہ سبوں کی یہ چالیں ناکام و نامراد ہوگئی کیونکہ اللہ کو آپؐکے ذریعے ہی دین مکمل کرنا تھا ۔آپ ؐ کو قریش نے پیش کش کی تھی کہ اگر آپ اعلان نبوت اور خدا یکتا کی عبادت کرنے کے دعوے سے بازآجائیں گے تو تو ہم آپکو سرداری عطا کریں گے اور اگر آپ مال و دولت کے طلبگار ہے تو ہم آپکو مال و دولت کے ڈھیر اور سونے کی وادیاں پیش کریںگے اور اگر آپ کسی حسین و جمیل عورت کے طلبگار ہے تو ہم آپکو سب سے حسین عورت عطا کریںگے ۔بشرطیکہ آپ دعوت حق کو چھوڈ دیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ ؐنے اُن پر واضح کیا کہ اگر آپ میرے ایک ہاتھ میں آفتاب اور دوسرے ہاتھ میں مہتاب دیں گے تب بھی میں حق سے باز آنے والا نہیں ہوں۔
حضرت عمر ؓجو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنےکے ارادے سے نکلے لیکن آپ ؐکو جونہی دیکھا تو زبان پہ ورد کلمہ جاری ہوگیا کہ یہ تاریخ اسلام میں ایک مثال بن گئی ۔ عمر ؓ کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد بھی کوئی نبی آتا تو وہ عمر ؓ ہوتا۔ گویا سلسلہ ٔ نبوت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکراور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ اختتام پزیر ہوا۔ ہر پیغمبر خاص وقت میں کسی خاص قوم کیلئے بھیجے گئے لیکن نبی برحق صلی اللہ علیہ پوری دنیا کیلئے بھیجے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دعوت حق کی طرح مدعو کیا اور خدائے یکتا کی عبادت اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کی تعلیم دی ۔ آپؐ کی تشریف آوری سے تاریخ کا رخ بدل گیا ۔ آپؐ ہر ایک کیلئے نجات کا ذریعہ بن گئے ۔نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وقت امت کی فکر رہتی تھی کہ کہیں میری امت عذاب کی شکار نہ ہوجائے وہ بس امت کی ہدایت کیلئے دعا مانگتے رہتے تھے اور انتقال کے وقت تک امت ہی امت کرتے تھے ۔
اللہ تعالی نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لیے اسوۂ حسنہ بنا دیا جو کہ سورہ الاحزب میں آیا ہے کہ یقینا تمہارے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہتیرین نمونہ ہیں ۔ جو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کیا، ہر مسلمان کے لئےاُن پر عمل کرنا لازم ہےاوراُن کی بتائی ہوئی شریعت پر چلناضروی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مشقت کا سامنا پہلے خود کرتے تھے پھر لوگوں کو حکم دیتے تھے اور دنیا میں کوئی بھی تکلیف ایسی نہیں تھی جو جو آپ ؐنے نہ اٹھائی ہو ۔ جنگ خندق میںخندق کھودنے والوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود شامل تھے ۔گویا جس چیز کا بھی آپ ؐ مطالبہ کرتے تھے تو پہلے آپ ؐ خود اس پر عمل کرتے تھے ۔ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک زندگی گزارنے کا واحدذریعہ ہے ۔ آپ ؐ نے انسان کو انسانیت کی ہر ایک چیز سکھائی، ایسا کوئی بات باقی نہیں رکھی کہ انسان عاجز رہے ۔ اب اگر اسکے بعد بھی کوئی کام دینِ حق میں گڑ لے تو ظاہر ہے کہ وہ بدعت ہے، جسکا ٹھکانہ آخر میں جہنم کے ماسوائے کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جشن میلا دبھی نہیں منایا نہ ہی آپ ؐکے صحابہ کرامؓ نے منایا یہ بدعت لوگوں نے خود گڑ لیا اور اسکو دین کا ایک رکن بنایا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو آیندہ زندہ رہے کا وہ (اُمت کے اندر ) بہت سارے اختلافات دیکھے گا ،تو تم (باقی رہنے والوں ) کو میری نصیحت ہے کہ نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہیں پڑنا۔ کیونکہ یہ سب گمراہی ہے ۔چنانچہ تم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیے کہ وہ میرے اور میرے ہدایت یافتہ خلفائےراشدین کی سنت پر قائم اور جمے رہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کےذریعے مضبوطی سے دبا لے۔ ( ترمذی)سال میں تو صرف دو عیدیں آپ ؐنے منائی اور اس تیسری عید کا کہیںذکر نہیں ہے ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے ۔ آپ امین اور صادق تھے کفار بھی آپکے پاس اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے ۔ آپکے اخلاق کی گواہی کائنات میں ہر کوئی دیتا ہے۔چاہے انسان ہو یا جِن ،حیوانات ہو یا نباتات ۔ ایک بار اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرتی ہے کہ اسکا مالك اسکو ظلم کرتا ہے آپ اسکو ظلم سے آزاد کرواتے اور مزید چارہ بھی دلواتےہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سراسر رحمت بن کر آئے جس نے ہمیں صراط المستقیم کی اور گامزن کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واحد نبی ہیں،جن کے امتی ہونے کی دعاباقی پیغمبروں نے کی ۔ آپ ؐاللہ کے محبوب ترین بندےہیں ۔حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتےہیں: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھے آپکو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو بھی نہ بناتا ۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو کائنات کا وجود بھی نہ ہوتا۔ اصل میں اللہ کو دین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےذریعے مکمل کرنا تھا ۔ اس لئے جب دنیا میں اللہ کا نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا تو قیامت اسی کے ساتھ برپا ہوگی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام مکمل کر کے دنیا سے نقل کرگئے۔ اسوقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک ۶۳سال تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لاکھ درود و سلام جس نے ہم تک دین مبین پہنچا یا ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پہ چلنے کی توفیق عطا کرے۔آمین
(آونیرہ شوپیان ۔طالبہ: جامعت البنات سرینگر )
�������