انسانی شعور کی اعلی سطح اور اس کے ذہنی سفر کی اعلی منزل یہ ہے کہ انسان کو کائنات کی کتاب فطرت کے اوراق سے اہم سبق اور حقیقت کا ادراک حاصل کرنا ہو۔اور وہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کائنات کے خالق و مالک کی معرفت حاصل کرنا اور اسکے حقوق کو جاننا ہے۔یہ اس وقت ممکن ہے جب کہ انسان کو سوجھ بوجھ حاصل ہو۔اس مقصد کے لیے انسان جو کوشش کرتا ہے اسے تعلیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ تعلیم روحانی،ذہنی اور جسمانی مادی،فنی ہر طرح کی ہوسکتی ہے جس کا حصول ایک بندئہ مومن کو سب سے زیادہ حق ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ کہ علم و حکمت مومن کی متاع گم شدہ ہے یہ جہاں کئی اسے پائیے اس کا سب سے بڑا حق بندئہ مومن کو حاصل ہے ۔آگہی و معرفت سے ہی انسان اشرف المخلوقات کے لقب سے ملقب ہے۔ معاشرتی زندگی میں سب سے زیادہ توجہ اسی پہلو پر دی جاتی ہے۔ کیونکہ علم انسان کی زندگی کے جملہ شعبہ جات کا احاطہ کرکے اسے ایک قابل قدر عنصر بنانے میں اس کا اہم معاون و مددگار ہے۔لیکن اس مقام کا حصول ایک فرد کے لئے بغیر استاد کے ممکن نہیں۔شاگرد اور استاد کا رشتہ دنیا کے تمام رشتوں میں قدیم ترین ہے تعلیم و تعلم کا سلسلہ بہت پرانا مانا جاتا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب رب کائنات نے آدم کو پیدا فرمایا اسے علم اشیاء کی تعلیم دی گویاکہ یہ عظیم کام اور مقام بلد والا فریضہ پہلے خود خالق کائنات نے انجام دیا ہے۔دنیا نے چاہئے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کا احساس کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اسلام نے بہت پہلے ہی اسکی عظمت کو اجاگر کیا ہے۔اسکے مقام بلند سے انسان کو آشنا کیا ہے۔اور خود رسول رحمتؐ نے طبقئہ اساتذہ کو یہ کہہ کر شرف بخشا ہے کہ کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔تعلیم و تعلم کو اسلام میں ایک عظیم ذمہ داری کے طور پر پیش کیا گیاہے،اور جو افراد اس پیشہ سے متعلق ہیں اور قوم کو زیور علم سے آراستہ کرتے ہیں انہیں بہت ہی معظم ومکرم قرار دیا ہے۔ حضرت علی کا قول ہے ،’’میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھادے ،اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے ،اگر چاہے تو آزاد کر دے۔‘‘
انسانی معاشرے کا کوئی ایسا شعبہ ،کسب و پیشہ اور فن نہیں جہاں استاد کی ضرورت نہ ہو۔بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے والدین اس کے پہلے معلم اور ماں کی گود پہلا مدرسہ ہے جو اسے چلنا ،بولنا ،کھانا ،اٹھنا،بیٹھنا وغیرہ سکھاتے ہیں۔ڈاکٹر ،انجینر ، آفیسر،پروفیسر،ماسٹر،منیجر،سی ایم۔پی ایم۔مولوی ،عالم،مفتی ،قاضی یا دوسرے پیشہ ور اور فنکار ،ایک استاد کی محنت شاقہ کے طفیل ہی ان مقام تک پہنچ پاتے ہیں۔بقول شاعر ؎
دیکھا نہ کوہ وکن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
استاد معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار نبھاتا ہے۔استاد معاشرے کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج حاصل ہوتا ہے ،جہاں اقوام و ملل کے مستقبل کی بنیاد تعمیر کی جاتی یے۔بقول علامہ اقبال ،’’استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں ،کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے ،،
تاریخی حقائق گواہ ہے کہ نئی نسل کی تعمیر و ترقی دنیائے انسانیت کی نشو ونما ،معاشرے کی تعمیر وتشکیل اور فرد بشر کی فلاح و بہبود میں ایک کامیاب معلم اور باکمال استاد کا جتنا بڑا مقام ہوتا ہے شاید کہ کوئی اور اس درجہ کو پاسکے۔یہی وجہ ہے کہ آپؐ کوبھی معلم انسانیت اور استاد کل سے پکارا گیاکیونکہ استاد حقیقی باپ سے زیادہ درجے کا حامل اور عزت و شرف میں اللہ کے سوا سبھوں میں ممتاز ہے۔جنہیں قوم کا حقیقی رہنما اور نسل انسانی کا کامل پیشوا مانا جاتا ہے اور جس سے علم کا دریا بہتا ہے۔عمدہ اخلاقی فضا ہموار ہوتی ہے۔امن وامان کا سایہ فگن ہوتا ہے۔حقیقی زندگی کی تازگی اور کامیاب منزل کی نورانی نظر آتی ہے۔(اشرف الدین عبد الرحمن)۔اگر مختصرا کہا جائے کی استاد زندگی کے رخ کو متعین کرتا ہے تو مبالغہ آرائی نہ ہو گی ؎
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
استاد کی اسی عظمت کی طرف نبی رحمت ؐنے اشارہ فرمایاہے کہ :جس سے تم سیکھو ،علم حاصل کرو اس کے ساتھ خاکسارانہ برتاو اختیار کرو۔یہ استاد ہی ہے جو ایک فرد کی تربیت کرتا ہے۔اس کی ذہنی نشو ونما کا فریضہ انجام دیتا ہے۔اس عظیم فریضہ کی انجام دہی کے لئے ضروری ہے کہ ایک استاد کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دیا جائے۔ان عظیم خدمات کے عوض ایک استاد کا حق بنتا ہے کی اسے سوسائٹ? میں نہ صرف معاشی حقوق بلکی ساتھ ہی اعلی مقام دیا جائے۔ اس سے بڑھ کر اس کے ادب و اکرام کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے لیکن آج معاشرے مین جس قدر حقوق اساتذہ کے تئیں بے اعتنائی برتی جاتی ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔طلبہ اور عوام کے دلوں میں حرمت اساتذہ بلکل ہی ناپید ہے۔یہ استاد ہی ہے جو محنت ومشقت ،الفت و محبت ، شفقت ولگن اور اپنا پسینہ نکال کر معاشرے کے چھوٹے بڑے عہدہ و منصب کے لئے افراد کار تیار کرتا ہے۔ آج معاشرہ اسی استاد کی قدر دانی سے تہی دامن ہے۔اس حالت ناگفتہ بہ کی ساری ذمہ داری ان افراد کے سر جاتی یے جن کے ہاتھوں میں نظام تعلیم و حکومت کی زمام کار ہے۔جو علم و ترقی کے بڑے نعرے لگائے پھرتے ہیں اور پرامن معاشرے کی تعمیر و ترقی کے خواب دیکھتے ہیں۔ جو یوم اساتذہ پر دھماکہ خیز تقریر کرتے ہیں۔کیا صرف عالمی سطح پر یوم اساتذہ مختص کرنے سے ہی اس حالت بد اور نقصان عظیم کی تلافی ممکن ہے ؟جب کہ حقیقی دنیا میں اساتذہ کے حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہو۔ اساتذہ اور طلبہ پر لاٹھیاں برسائی جارہی ہو ،ٹیر گیس اور رنگ دار پانی چھڑکاجارہا ہو ،زد کوب کیا جارہا ہو۔جہاں تعلیم کو پیٹ کے ساتھ جوڑا جاتا ہو ،جہاں کی تعلیم گاہیں سیاسی اکھاڑے اور تجارتی منڈیاں بن گئی ہوں ،ایسے نظام میں بہتری کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ہے جن کے منتظمین کے ہاتھ معصوم طلبہ کے خون سے معنوی طور رنگے ہوئے ہوں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسا نظام اور نصاب تعلیم تشکیل دیا جائے جس کی بنیاد خدا پرستی پر ہو ، اخلاقیات پر ہو،انسانیت پر ہو نہ کہ خدا بیزاری اور مادہ پرستی پر۔خدا بیزاری اور مادہ پرستی پر تشکیل دئے گئے نظام و نصاب سے صرف انسان نما روبورٹ اور مشین توبن سکتے ہیں جو برق رفتاری سے اشاروں پر کام انجام دیتے ہونگے ،جو ہیرو شما اور ناگاساکی کو وجود میں لاسکتے ہیں ،شام ،عراق و افغان کو کھنڈرات میں تبدیل کر سکتے ہیں ،لیکن ایسے باصلاحیت وصالحیت افراد نہیں بن سکتے جو انسانی درد اور ہوش وحواس رکھتے ہوں ،جو دوسروں کے حقوق کا احترام جانتے ہوں،جو استاد کے مقام و ادب سے واقف ہوں۔ایسے حالات میں ہمارے اساتذہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کی وہ اس پر فتن نظام تعلیم اور اس طوفان بدتمیزی میں بچوں کو انسانی فرایض کے طور پراخلاقیات کا سبق دیں،تب ہی کسی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اس حالت زار اور بے حسی کے پیش نظر مدارس اور دینی تنظیمیں مخلف النوع پروگرامات کا انعقاد کرتی ہیں. جیسے اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر نے ماضی قریب میں احترام اساتذہ کی بحالی اور اہمیت کے لیے ایک ہفتہ احترام اساتذہ ٔ پروگرام بنایا تھا اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا ۔ ایسے اقدام وقت کی اہم ضرورت ہے جیساکہ اس طلبہ تنظیم کی جانب سے اٹھایا جارہا ہے۔ اس اہم مہم میں ہر طالب علم اور استاد کو تعاون کرنا چاہیے۔اس کار خیر میں شانہ بشانہ ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ واقعتاً ایسے اقدام ایک بہتر مستقبل کی نوید کے طور پر ثابت ہو سکتے ہیں۔ اللہ ہمیں قوم کے معماروں کی قدر و خدمت کرنے کی توفیق دے( آمین)